بچوں پر والدین کے رویوں کا اثر
18 فروری 2011بحث کے دوران یہ جملہ،’ تم بالکل اپنی ماں پر گئے ہو‘ کبھی کبھار ایسا بھی لے لیا جاتا ہے کہ جیسے یہ کہا جا رہا ہو،’ تم سے بات کرنا مشکل ہے‘۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں سمجھا جاتا ہے؟ یہ کیوں سمجھا جاتا ہے کہ بچہ اپنی ماں سے صرف بری خصوصیات ہی سیکھتا ہے؟
جرمن ماہر نفسیات دان Roland Raible اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گھر کا ماحول بچے کی ابتدائی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت اپنی ماں کے ساتھ گزارتی ہے، اس لیے بچے بالخصوص لڑکیاں اپنی ماں کی عادات اختیار کر لیتی ہیں۔
Raible کہتے ہیں کہ شعوری طور پر بچے کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا ہے لیکن بعد میں بچے زیادہ تر اپنی ماں کی طرح ہی عمل کرتے ہیں۔ تاہم وہ یہ ہر گز نہیں کہتے کہ بچہ اپنی ماں سے صرف بری عادات ہی سیکھتا ہے۔
ایک اور نفسیات دان Joerg Wesner اسی امر کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے اپنے والدین سے صرف بری خصوصیات ہی نہیں سکیھتے بلکہ والدین اپنے بچوں کے رویوں کو نکھارتے یا بگاڑتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ سارا ایک لاشعوری عمل ہے، جس کا بچوں کو بالکل بھی احساس نہیں ہوتا۔
اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے Raible کہتے ہیں کہ بچے کا ماں کی طرح عمل کرنا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس عمل کو مشروط نہیں کرنا چاہیے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ جملہ کہ ’کوئی بالکل اپنی ماں کی طرح کی عادات رکھتا ہے‘، معاشرتی سطح پر ایسے دیکھا جاتا ہے کہ جیسے وہ شخص سمجھدار نہیں ہوا ہے۔ نفسیات دانوں کے مطابق ایسے تمام مفروضات اور روزمرہ کے جملے دراصل صنفی امتیاز کی وجہ سے بولے اور سنے جاتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ معاشرتی سطح پر ماں اور باپ کی خصوصیات کو جیسے بھی دیکھا جائے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے میں ماں باپ کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔
Raible کے بقول فلسفیانہ سطح پر اقدار کے جتنے بھی ماڈل ہیں، ان کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر منفی قدر میں ایک مثبت پہلو بھی پنہاں ہوتا ہے۔ جیسے کہ لالچ کا کفایت شعاری میں بدلنا یا پھر بہت زیادہ صفائی کے شوق کا منظم زندگی میں ڈھل جانا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ والدین کا بچوں کی زندگی پر اثر بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بچے اپنے والدین سے صرف بری عادات ہی سیکھتے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی