عقیدے کی پرورش کے لیے عقل سے مناسب فاصلہ اختیار کرنا پہلی شرط ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بچوں کو بھی اپنے ساتھ کس ایسے عقیدوی دائرے میں گھسیٹ کر لے جانا ضروری ہے، جہاں عقل کی روشنی اس دائرے سے دوری پر ہونے کی وجہ سے کم ہی پہنچ پاتی ہو۔
سیاست ایک ایسی سرگرمی کا نام ہے، جس میں فیصلہ سازی کے لیے مکالمہ کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ سیاست بنیادی طور پر جنگ و جدل کا ایک ایسا متبادل ہے، جو بغیر خونریزی و دشنام طرازی کے فیصلہ سازی کے امکانات روشن کرتا ہے۔ خونریزی و دشنام طرازی وہ اعمال ہیں، جن میں انسان کے جذبات عقل پر حاوی ہوتے ہیں اور وہ بزور طاقت اپنا فیصلہ دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ جن پر وہ یہ فیصلہ مسلط کرتا ہے، وہ بھی طاقت حاصل ہونے پر یہی روش اختیار کرتے ہیں اور یوں اس دائرے میں مقید نوع انسانی کے لیے ترقی کے امکانات محدود تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
جن قوموں میں نصاب کمزور اور غیر عقلی رویوں کی باقاعدہ تعلیم دینے کا رواج ہو وہاں اچھے سے اچھا خیال بھی غیر عقلی اور جذباتی رویوں کے تعفن کا شکار ہو جاتا ہے۔ تصدیق یا اعتقاد کا عقلی تعصب سر چڑھ کر بولتا ہے۔ کیونکہ تصدیق کا تعصب تمام تعصبات کی ماں ہے تو اس ماں تعصب کی موجودگی میں غلط فیصلوں کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یوں لگتا ہے کہ باقاعدہ کوئی ایسا بندوبست ہے، جس میں یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ اوسط ذہن سے اوپر والا کوئی شخص نظام کا حصہ نہ بن پائے اور اگر کسی اتفاق کے نتیجے میں ایسا کوئی فرد قومی افق پر نمودار ہونے کی کوشش کرے تو اس پر زمین تنگ کر دی جائے۔
بچوں کے لیے ہمارے جامد ذہن پہلے ہی بہت بڑی تعداد میں غیر عقلی سامان میسر مہیا کرنے کی فیکٹریاں ہیں۔ بچے ہمارے ہاں جب کچھ بیدار ہوتے ہیں اور سوال پوچھنا شروع کرتے ہیں تو انہیں پہلے غیر عقلی جواب دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بصورت دیگر اپنی اتھارٹی کا استعمال کر کے شٹ اپ کال دے دی جاتی ہے۔ بتا دیا جاتا ہے کہ اچھے بچے ایسے سوال نہیں پوچھتے اور بڑے جو کہتے ہیں ان کی بات کو من و عن تسلیم کرنا اچھے بچوں کی بنیادی خصوصیت ہے۔
ایک انسانی بچے کی پرورش دو انتہائی سادہ اصولوں کو مد نظر رکھ کر کرنی چاہیے۔ پہلا اصول ہم دلی کا ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے کسی کو گزند نہ پہنچے۔ یہ تعلیم عقلی بنیادوں پر دی جاتی ہے، جیسا کہ دوسروں کو بھی ایسے ہی تکلیف ہوتی ہے جیسے تمہیں ہوتی ہے ۔ یہ تربیت روزمرہ ہونے والے واقعات کی روشنی میں روزمرہ بنیادوں پر ہی دی جاتی ہے اور بار بار یاد دہانی کا ایک سلسلہ قائم رکھنا پڑتا ہے۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ جیسے ہم ان کے جسم کی پرورش کے لے اچھی غذا کا انتخاب کرتے ہیں، اسی طرح ان کی عقل کی پرورش سوالوں کے جواب دینے میں پوشیدہ ہے۔ ہم نے نہ صرف انہیں سوالوں کے حتی المقدور عقلی جواب دینے ہوتے ہیں بلکہ ایک ایسا ماحول مہیا کرنا ہوتا ہے کہ تجسس کو ہوا ملے اور سوالوں کے انبار پیدا ہوتے رہیں۔
اگر کوئی بچہ سیاسی مذہبی ثقافتی کسی بھی حوالے سے فیصلہ کن لہجہ اختیار کرے تو نفسیات کے طالبعلم ہونے کے ناطے پہلا خیال جو میرے ذہن میں آئے گا وہ یہ ہو گا کہ اس کے والدین نے اس کی شخصیت کا احترام نہیں کیا۔ بچے کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اتھارٹی کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ یہاں سب سے پہلے بنیادی سوال تو یہی پیدا ہو جاتا ہے کہ متذکرہ بالا تمام مباحث موضوعی ہیں ان موضوعی مباحث پر حتمی رائے آپ نے کیسے قائم کی؟ سیاست کے شعبے میں تو کھربوں کھربوں کھربوں اور لا متناہی کھربوں متغیرات ہیں تو ایسے میں زمین پر کوئی بھی فرد یہ دعوی تو کرنے سے قاصر ہے کہ وہ اس حوالے سے کوئی حتمی اور عقلی فیصلے تک پہنچ چکا ہے۔
ہم فیصلہ ذہانت اور جذبات کے توازن سے کرتے ہیں کہ فیصلہ کرنا جب لازم ٹھہرے لیکن کوئی صاحب علم یہ کبھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس نے یہ فیصلہ مکمل طور پر درست کیا ہے اور اس کے اس فیصلے میں سقم کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے۔ وہ سچ، جن کو ہم حتمی سچ کہتے آئے ہیں، اب تو جدید علوم جیسے مابعد جدیدت نے ایسی حتمی سچائیوں کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔
بچوں کو ان موضوعی مباحث پر اپنے اخذ کردہ نتائج، جن کو ہم حتمی سمجھتے ہیں دور ہی رکھنا چاہیے۔ بچوں کو بتانے والے موضوع یہ ہو سکتے ہیں کہ سیاسی ادارہ کیسے کام کرتا ہے؟ جمہوریت کے خیال کا ماخذ کیا ہے اور جمہوریت کے نظام میں کیا کیا خامیاں ہیں؟ جمہوریت کا متبادل کیا کوئی نظام اس سے بہتر ہے؟
جمہوریت کو خامیوں سمیت قبول کرنا ہماری مجبوری کیوں ہے؟ مقننہ کیسے کام کرتی ہے؟ قانون بناتے وقت کن کن باتوں کا خیال رکھا جانا چاہیے؟ کیا قانون پر تنقید اور بحث ہو سکتی ہے؟ اگر کوئی قانون آپ کی رائے میں غلط ہو تو اس کو تبدیل کروانے کا طریقہ کار کیا ہے؟ مکالمہ کیوں ضروری ہے؟
بچوں کو یہ ضرور بتائیے کہ اس سیاستدان نے، جو بدزبانی کی ہے غلط ہے اور بدزبانی ہمیشہ دلیل کی کمی کی صورت لاشعوری طور پر انسان کے رویے میں در آتی ہے۔ ان کو سیاسی جماعتوں کے نظریات اور ان کی کمیوں اور کامیابیوں کی طرف بلا تعصب نشاندہی کیجیے۔
لیکن بچوں کو یہ بتانا کہ فلاں سیاسی جماعت غدار ہے نااہل ہے، فلاں سیاسی جماعت نے ملک بیچ دیا ہے اور فلاں سیاسی جماعت اور اس کے پیروکار ملک دشمن ہیں یا فلاں سیاسی جماعت کے ماننے والے بے وقوف ہیں اور عقل سے عاری ہیں۔ یہ سب بیانات ہمارے شدت پسند جذباتی رویوں کا مظہر ہیں ان بیانات سے بچوں کو دور رکھیں گے تو ان کا ذہن جامد نہیں ہو گا۔ سوچتا رہے گا، نئے نئے سوال کھڑے گا؟
بچوں کو خود سوچنے کی عادت پڑے گی لیکن ایسے تمام خیالات جو اپنی ساخت میں شدت اور غیر عقلی پرکھ لیے ہوں گے وہ آپ اپنے بچوں کی شخصیت کا احترام نہ کرتے ہوئے اور اپنی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے بتائیں گے تو اس کے دو ہی نتائج ہوں گے۔ ایک وہ متحرک سوچ کے حامل افراد نہیں بن سکیں گے، جس سے ان کی ترقی کا راستہ بند رہے گا اور دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ وہ آپ کی ہی کاپی بن جائیں گے، جو کہ درست نہیں ہے کیونکہ بحیثیت والدین ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہم سے ہر جہت میں بہتر ہوں۔