بچپن میں انگوٹھا چوسنے، ناخن چبانے والے افراد میں الرجی کم
12 جولائی 2016نیوزی لینڈ میں ویلنگٹن سے منگل بارہ جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اس مطالعے کے دوران پتہ چلا کہ جو بچے کم عمری میں انگوٹھا چوسنے یا اپنے ناخن چباتے رہنے کے عادی رہے ہوں، ان میں بالغ افراد کے طور پر مختلف طرح کی الرجی کے خلاف جسمانی مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔
اس کے برعکس ایسے افراد میں الرجی کے خلاف جسمانی مدافعت مقابلتاﹰ کم پائی گئی، جنہیں بچپن میں انگوٹھا چوسنے یا ناخن چبانے میں سے دونوں یا کوئی ایک بھی عادت نہیں رہی تھی۔
یہ نئی تحقیق نیوزی لینڈ کی اوٹاگو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے مکمل کی، جس کے نتائج بچوں کے امراض سے متعلق امریکی تحقیقی جریدے ’پیڈِیاٹرِکس‘ (Pediatrics) کے تازہ شمارے میں اسی ہفتے شائع ہوئے۔
ماہرین کے مطابق اس ریسرچ کے نتائج ماہرین کی پہلے سے موجود اس رائے کی تصدیق کرتے ہیں کہ انگوٹھا چوسنے یا ناخن چبانے جیسی عادات کے ذریعے جن بچوں کا واسطہ بہت چھوٹی عمر میں ہی جسم سے باہر پائے جانے والے حیاتیاتی جرثوموں سے پڑتا ہے، وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اندر ایسا مدافعتی نظام تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جو الرجی کی مختلف صورتوں کے خلاف دفاع کا کام کرتا ہے۔
دوسری طرف جن بچوں کو اوائل عمری میں مائیکروبیئل (microbial) جرثوموں یعنی عمومی بیکٹیریا یا وائرس کا سامنا نہ رہا ہو، ان میں الرجی کے خلاف جسمانی مدافعت کم ہوتی ہے، اور وہ بالغ انسانوں کے طور پر بھی کئی طرح کی الرجی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اس طویل المدتی ریسرچ کے دوران 1037 ایسے بچوں کے تفصیلی معائنے کیے گئے، جنہیں انگوٹھا چوسنے یا ناخن چبانے کی عادت تھی۔ ان بچوں میں ایسی عادات کا بار بار جامع مطالعہ اس وقت کیا گیا جب ان میں سے ہر کسی کی عمر پہلے پانچ، پھر سات، پھر نو اور آخر میں گیارہ برس تھی۔
پھر ان بچوں کے 13 اور بعد میں 32 برس کی عمر میں خاص طرح کے جرثوموں کے ساتھ جلد کے الرجی ٹیسٹ کیے گئے۔ پتہ یہ چلا کہ 13 برس کی عمر کے جو نابالغ افراد بچپن میں انگوٹھا چوستے یا ناخن چباتے تھے، ان میں سے صرف 38 فیصد میں الرجی کی شکایت نظر آئی۔
جو نوجوان لڑکے لڑکیاں نہ تو بچپن میں انگوٹھا چوستے تھے اور نہ ہی اپنے ناخن چباتے تھے، ان میں جلد کی ایسی الرجی کی شرح 49 فیصد دیکھی گئی۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ جو زیر مطالعہ افراد بچپن میں انگوٹھا بھی چوستے تھے اور اپنے ناخن بھی چباتے تھے، ان میں اسی ٹیسٹ کے دوران طبی نوعیت کی الرجی کی شرح صرف 31 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
کئی سال بعد جب ان زیر مطالعہ افراد میں سے ہر ایک کی انفرادی عمر 32 برس ہو گئی، تو پھر ان کے ٹیسٹ کیے گئے۔ اس بار نتائنج اور بھی واضح تھے۔ اس تحقیقی منصوبے کی قیادت کرنے والے محقق باب ہینکوکس (Bob Hancox) نے بتایا، ’’جن بچوں نے چھوٹی عمر میں ہی مائیکروبیئل جرثوموں کا سامنا کیا ہو، ان میں نوجوانوں اور بالغ افراد کے طور پر جسمانی الرجی کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس ریسرچ کے نتائج کے آخر میں نیوزی لینڈ کے ان ماہرین نے لکھا ہے، ’’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ بچوں میں انگوٹھا چوسنے یا ناخن چبانے جیسی عادات کی حوصلہ افزائی کی جانا چاہیے۔ اس لیے کہ جلد کی الرجی کو چھوڑ کر اچھی صحت کے حوالے سے ان دونوں عادات کے حقیقی طبی فائدے ابھی تک واضح نہیں ہیں۔‘‘