بچہ بازی میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا، صدر غنی
28 جون 2016فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ طالبان جنسی غلامی پر مجبور کیے جانے و الے بچوں کو استعمال کرتے ہوئے خونریز حملے کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ طالبان انہی بچوں کے ذریعے گزشتہ دو برسوں کے دوران صوبے اروزگان میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ اشرف غنی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا، ’’ صدر نے صوبہ ارزوگان میں ہونے والے ان واقعات کی مکمل چھان بین کرنے اور سامنے آنے والی تفصیلات کے تناظر میں فوری کارروائی کا حکم دیا ہے‘‘۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ کوئی بھی اور کسی بھی عہدے کا شخص اگر ان واقعات میں ملوث پایا گیا تو اسے افغان اور بین الاقوامی قوانین کے تحت سزا ملے گی۔
افغانستان میں بچوں کو جنسی تفریح کے لیے استعمال کرنے یعنی ’’بچہ بازی‘‘ کی ثقافت بہت پرانی ہے اور اسے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ بچہ بازی میں کم عمر لڑکوں کو اکثر خواتین کے کپڑے پہنا کر مردوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بچے محفلوں کی زینت بنتے ہیں اور بعد میں مرد حضرات ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے تیرہ سے لے سترہ سال تک کے بچے منتخب کیے جاتے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق خاص طور پر اروزگان صوبے میں طالبان بچہ بازی کا شکار ہونے والے بچوں سے رابطے کرتے ہیں اور پھر اُنہیں اُنہی لوگوں پر حملے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جنہوں نے ماضی میں ان سے جنسی تفریح حاصل کی ہوتی ہے۔ پولیس کمانڈرز، ججز، سرکاری اہلکاروں اور ایسے حملوں بچ جانے والوں نے اس بارے میں اے ایف پی کو بتایا۔
طالبان نے اس طرح کے بچوں کو حملوں کے لیے استعمال کرنے کی خبروں کو مسترد کر دیا ہے۔ صدر اشرف غنی کے بیان میں مزید کہا گیا کہ افغانستان میں استحصال کرنے والوں کی کوئی جگہ نہیں ہے، ’’ ان افراد کو سزا دلانے کے لیے میرے بس میں جو ہوا میں کروں گا۔‘‘