بچے بطور ’جنسی غلام‘، جنگ میں افغان طالبان کا نیا ہتھیار
16 جون 2016اے ایف پی کے اس جائزے کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی روابط کی روایت ویسے تو پورے افغانستان میں ایک عرصے سے چلی آ رہی ہے لیکن صوبے اروزگان میں شاید یہ روایت سب سے زیادہ مستحکم ہے، جہاں ’بے ریش‘ لڑکے طاقتور پولیس کمانڈروں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ اروزگان کے سکیورٹی حکام کے مطابق طالبان اس طرح کی متعدد وارداتوں میں گزشتہ دو برسوں کے دوران سینکڑوں افغان پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر چکے ہیں۔
وہاں بڑھتی ہوئی بد امنی کے پس منظر میں اپریل میں سکیورٹی کے شعبے میں ہونے والے رد و بدل کے دوران اپنے عہدے سے ہٹا دیے جانے والے پولیس چیف غلام سخی روغ لیوانائی بتاتے ہیں: ’’طالبان حسین لڑکے بھیجتے ہیں، اُن کے ذریعے چیک پوائنٹس کے اندر تک پہنچتے ہیں اور یوں پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا جاتا ہے، اُنہیں نشہ دیا جاتا ہے یا زہر دے دیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے پولیس فورسز کی سب سے بڑی کمزوری کا پتہ چلا لیا ہے۔‘‘
افغان حکام کے مطابق ان خوبصورت ’جنسی غلاموں‘ سے نمٹنا خود کُش بمباروں سے نمٹنے کے مقابلے میں زیادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
ایک اکیس سالہ پولیس کمانڈر مطیع اللہ کے مطابق گزشتہ سال ذبیح اللہ نامی ایک لڑکے نے، جو ایک پولیس چیک پوائنٹ کے کمانڈر کا ’جنسی غلام‘ تھا، رات کو دیر گئے کمانڈر سمیت سات پولیس اہلکاروں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا: ’’پھر وہ طالبان کو لے کر آیا اور ایک ایک لاش کو رائفل کے بٹ مار کر بتاتا رہا کہ دیکھو، سب مر چکے ہیں۔‘‘ مطیع اللہ بھی وہیں پڑا تھا لیکن اُس نے یہی ظاہر کیا کہ وہ مر چکا ہے۔
ہر پولیس چیک پوائنٹ پر تین چار بچے بھی ضرور ہوتے ہیں، جو جنسی غلامی ہی نہیں کرتے بلکہ ساز و سامان اٹھانے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ یہی بچے طالبان کے آلہٴ کار تب بنتے ہیں، جب وہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔
بچوں سے ’جنسی غلامی‘ لینا خاص طور پر طاقتور اور با اختیار طبقے کا شغل ہے۔ خواتین تک محدود رسائی اور دلہنوں کے لیے طلب کی جانے والی بھاری رقوم بھی اس رجحان کا ایک بڑا سبب ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو نئے اور اچھے کپڑے پہنانے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ پُر کشش نہ نظر آئیں اور کوئی انہیں اڑا نہ لے جائے۔ افغانستان کی وزارتِ داخلہ نے افغان سکیورٹی فورسز کے اندر موجود اس جنسی رجحان کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے البتہ امریکی کانگریس نے اس پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔