بڑھتی ہوئی چینی طاقت کا جواب، ایشیائی ملکوں کی عسکری مضبوطی
11 ستمبر 2014اس وقت کئی ایشیائی ریاستوں کی نظریں صرف چین پر لگی ہیں جو بڑی بہادری سے مشرقی ایشیا کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ وسیع تر علاقے پر اپنی ملکیت کے دعوے کر رہا ہے۔ یہ ملک اپنے دفاع پر اس لیے بہت زیادہ رقوم خرچ کرنے لگے ہیں کہ ان کے چین کے ساتھ مختلف جزیروں اور سمندری علاقوں کی ملکیت کے کثیرالجہتی تنازعے پائے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ جنوبی کوریا اور بھارت جیسے ممالک بھی اپنی مسلح افواج کو جدید تر بنانے میں مصروف ہیں حالانکہ ان کے چین کے ساتھ علاقائی تنازعے اب زیادہ تر سفارتی نوعیت کے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ہتھیاروں کی درآمد کے قریب نصف حصے کے خریدار صرف ایشیائی ملک ہیں۔
چین کا سالانہ دفاعی بجٹ تو گزشتہ ایک عشرے کے دوران زبردست اضافے کے بعد چار گنا ہو چکا ہے۔ چین، ویتنام اور کئی دیگر ممالک ایسے ہیں جو ا پنے دفاعی اخراجات میں اقتصادی ترقی کی شرح کے حساب سے یا اس سے بھی زیادہ رفتار سے اضافہ کرتے رہے ہیں۔
امریکی انٹیلیجنس ریسرچ کمپنی Stratfor کےجغرافیائی اور سیاسی امور کے اعلیٰ ترین تجزیہ کار ڈاکٹر رابرٹ ڈی کپلان کہتے ہیں کہ چین کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ بحر الکاہل کے علاقے میں غالب فوجی طاقت کے طور پر امریکا کی جگہ لے لے۔ اس کی وجہ بحیرہ جنوبی چین کے انتہائی اہم سمندری راستے اور تیل اور قدرتی گیس کے ممکنہ لیکن وہ پرکشش قدرتی وسائل ہیں جو مشرقی ایشیا کے سمندری علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
رابرٹ ڈی کپلان کے مطابق چین کو یقین ہے کہ وہ بحیرہ جنوبی چین اور بحیرہ مشرقی چین کے علاقوں میں اپنی عسکری طاقت میں ویتنام اور فلپائن کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتاری سے اضافہ کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چین زیادہ آسانی سے نقل و حرکت کے قابل ہو گیا اور اسے اپنے قریبی سمندروں پر زیادہ کنٹرول کا موقع مل گیا، تو بیجنگ حقیقی معنوں میں ایک بڑی بحری طاقت بن جائے گا۔
چین اپنے ملٹری بجٹ کے حوالے سے ابھی تک امریکا کے قریب نہیں پہنچا۔ اامریکا ہر سال اپنے دفاع پر 665 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔ یہ رقوم امریکا کے بعد سب سے زیادہ فوجی بجٹ والے دنیا کے آٹھ بڑے ملکوں کے مجموعی دفاعی اخراجات سے بھی زیادہ بنتی ہیں۔ سٹاک ہوم کے امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ کے مطابق امریکی ملٹری بجٹ ابھی بھی چین کے فوجی بجٹ کے تین گنا سے زیادہ ہے۔
لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو چین کا فوجی بجٹ بھی اتنا زیادہ ہے کہ وہ مشرقی اور جنوبی ایشیا کے تمام 24 ملکوں کے سالانہ دفاعی اخراجات کے مجموعے کے تقریبا برابر بنتا ہے۔ چین کی بحری طاقت کے حوالے سے سب سے زیادہ توجہ کا حامل چینی آبدوزوں کا بیڑہ ہے، جو سن 2020 تک امریکا کے بالکل برابر ہو جائے گا۔
تب امریکا اور چین دونوں کے پاس اپنی اپنی 78 آبدوزیں ہوں گی۔ چین کی اکثر آبدوزیں ہائی نان کے جزیرے کے نواح میں ایک بہت بڑے زیر آب اڈے پر کھڑی ہوں گی، جہاں سے بحیرہ جنوبی چین شروع ہوتا ہے۔ چینی ساحلوں سے ملحقہ سمندروں کے وسیع تر علاقوں کی ملکیت سے متعلق بیجنگ کے کئی دوسرے ملکوں کے ساتھ تنازعات کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت خطے کے بہت سے ممالک امریکا اور روس سے دھڑا دھڑ ہتھیار خرید رہے ہیں۔
روس ایشیا کو ہتھیار برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جس کے بعد امریکا کا نام آتا ہے۔ ہتھیاروں کی برآمد کنندہ ریاستوں کی اس فہرست میں ہالینڈ جیسے یورپی ملک بھی شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیائی ملک اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ علاقے میں چین کی مسلسل بڑھتی ہوئی طاقت کے تدارک کے لیے کر رہے ہیں۔
جاپان تو خود کو بظاہر کسی ممکنہ کشیدگی کے لیے بھی تیار کر رہا ہے۔ سنگاپور میں راجا رتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ملٹری اسٹڈیز کے ماہر برنارڈ فوک وینگ کہتے ہیں، ’’چین اگر اپنی طاقت دکھا رہا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے لیے مواقع دیکھ رہا ہے۔ یہ صورت حال مزید خراب ہو کر پرتشدد بھی ہو سکتی ہے۔‘‘