بڑی طاقتوں کا جوہری ہتھیاروں پر بھروسہ
13 اپریل 2010ايٹمی اسلحے کے ذريعے دوسرے ممالک کو خوفزدہ کرنے کی منطق يہ ہے کہ جس کے پاس ايٹمی ۔ ہتھیار ہيں، وہ زيادہ محفوظ ہے۔ ليکن کيا ايک ايسی بدلی ہوئی دنيا ميں بھی يہ نظريہ کارآمد ہے جس ميں مسلسل زيادہ ممالک جوہری اسلحے تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہيں؟
ايٹمی دور کا آغاز، 6 اگست سن 1945کے دن جاپان کے شہر ہيروشيما پر ايٹم بم گرائے جانے کے ساتھ ہوا تھا۔ امريکہ کی جانب سے کئے جانے اس حملے ميں 78 ہزار افراد فوراً لقمہء اجل بن گئے تھے۔ اگلے دنوں ميں مزيد 50 ہزار اموات واقع ہوئيں۔ خوفناک طاقت والے نئے بھيانک ہتھیار اور اُس کی تباہ کن قوت کے متعلق دنيا کو برطانوی ريڈيو اسٹيشن بی بی سی سے علم ہوا تھا۔ اس وقت بی بی سی نے کچھ اس طرح سے خبر دی تھی، ًسائنسدانوں نے بالآخر ايٹم بم ايجاد کرليا ہے۔ پہلا ايٹم بم صبح ايک جاپانی شہرپر پھينکا گيا۔ اس بم ميں 20 ہزار ٹن انتہائی شديد دھماکہ خيز مادہ تھا۔ يہ ايک بمبار طيارے سے گرائے جانے والے عام يا روايتی بم کے مقابلے ميں 2 ہزار گنا زيادہ ہےً
اپنے ايٹمی ہتھياروں کی بدولت امريکہ،سن 1945 کے بعد کچھ مدت کے لئے دنيا کی واحد بڑی طاقت بنا رہا جسے کوئی چيلنج نہيں کرسکتا تھا۔سن 1950 کے عشرے کے شروع ميں سوويت يونين نے بھی ايٹم بم بنا ليا۔ اب ايک دوسرے کو خوفزدہ کرنے کا وہ دور شروع ہوا جس ميں نعرہ يہ تھا کہ جو پہلے فائر کرتا ہے وہ اپنے دشمن کے بعد مرنے والا دوسرا ہوتا ہے۔ دونوں بڑی طاقتوں کے پاس حملہ کرنے کی صلاحيت تھی، يعنی يہ کہ وہ مخالف کے ايٹمی حملے کا نشانہ بننے کے بعد اُس کو نيست و نابود کرنے والا حملہ کرسکتی تھيں۔
امريکہ اور سوويت يونين کے مابين بد اعتمادی سے ايٹمی ہتھیاروں کی دوڑ تيزی سے جاری رہی۔ سرد جنگ کے نقطہء عروج پر امريکہ اور سوويت يونين کے اسلحہ خانوں ميں 40 ہزار کے لگ بھگ ايٹمی وار ہيڈز تھے۔
يورپ ميں امريکہ پر شدید عوامی تنقيد کی گئی۔ بون ميں 3 لاکھ سے زائد افراد کے ايک احتجاجی جلسے ميں جرمن فوج کے ايک جنرل گرت باستيان بھی شامل تھے جنہوں نے کہا تھا ًہم مشرق اور مغرب ميں ايٹمی ہتھياروں کے خلاف ہيں اور اُن کو مزيد برداشت نہيں کرنا چاہتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ايک دوسرے کو قتل عام کی دھمکی امن قائم نہیں رکھ سکتی۔ اس لئے وہ ايک دوسرے کو خوفزدہ کرنے کے بجائے تخفيف اسلحہ کا مطالبہ کرتے ہيںً
سن1980 کے آخر ميں وسطی اور کم فاصلے پرمار کرنے والے ميزائلوں کو ضائع کرنے، سرد جنگ کے خاتمے، سوويت يونين کے ٹوٹنے اور سوويت فوجی معاہدے وارسا پيکٹ کے خاتمے کے باوجود امريکہ اور روس نے دور تک پہنچ رکھنے والے بمبار طياروں، ايٹمی ہتھياروں سے ليس آبدوزوں اور لمبے فاصلے تک مار کرنے والے ايٹمی ميزائلوں کے ذريعے ايک دوسرے کوخائف رکھنے کی پاليسی جاری رکھی۔ بش حکومت نے تو مسائل کھڑی کرنے والی رياستوں کو ايٹمی ہتھياروں سے حملہ کرنے کی کھلی دھمکی تک دی تھی۔ اوباما انتظاميہ کی اپريل کے شروع ميں شائع ہونے والی جوہری پاليسی ميں اس دھمکی سے اجتناب کيا گيا ہے تاہم صدراوباما نے بھی کہا کہ ايٹمی حملے کا خطرہ بڑھ گيا ہے کيونکہ اس دوران مزيد ممالک نے ايٹمی ہتٌھيار حاصل کرلئے ہيں۔ اُنہوں نے کہا کہ امريکہ کسی بھی دشمن کو خائف کرنے کے لئے ايٹمی اسلحے کا قابل اعتماد اور مؤثر ذخيرہ برقرار رکھے گا۔
روس،چين،برطانيہ اور فرانس بھی دشمن کو خائف کرنے کے نظريے کے ذريعے اپنے ايٹمی ہتھياروں کو برقرار رکھنے کا جواز پيش کرتے ہيں۔ سن 70 کے عشرے ميں نئے ايٹمی ملک بننے والے اسرائيل، بھارت اور پاکستان کی بھی يہی دليل ہے اور شمالی کوريا اورايران ميں ايٹم بم بنانے کے حاميوں کا بھی يہی کہنا ہے۔ ايٹمی ہتھياروں کے ذريعے ايک دوسرے کوخوفزدہ کرنےکی منطق ٹوٹتی نظر نہيں آتی۔
رپورٹ : شہاب احمد صدیقی
ادارت : عدنان اسحاق