بھارت اسمگل ہوئے روہنگیا مہاجرین گھر کی تلاش میں
5 جنوری 2018عبدالرحمان کا تعلق میانمار کی ریاست راکھین سے ہے۔ اُنہیں بنگلہ دیش کے ایک مہاجر کیمپ سے غیر قانونی طور پر بھارت لا کر فروخت کر دیا گیا تھا۔ جبری مشقت سے آزادی پانے کے بعد اب وہ ہریانہ کے ایک ضلعے، میوات میں دیگر روہنگیا مہاجرین کے ساتھ پناہ گزین ہیں۔
خبررساں ادارے تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے چار بچوں کے والد، 45 سالہ عبدالرحمان بتاتے ہیں کہ انہیں انسانوں کا ایک اسمگلر اچھی نوکری اور مستقبل کا خواب دکھا کر بھارت لے آیا جہاں انہیں دیگر دو افراد کے ہمراہ 25 ہزار روپوں میں جبری مشقت کے لیے فروخت کر دیا گیا۔
اقوام متحدہ پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ بنگلہ دیش میں قائم مہاجر مراکز انسانی اسمگلروں کے لیے کاروبار کا ذریعہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اسی تناظر میں اب تک ایسے کئی کیس سامنے آچکے ہیں جن میں مہاجرین کو بھارت اسمگل کرنے کے بعد جبری مشقت کے لیے فروخت کیا گیا۔
گو کہ بھارت میں جبری مشقت پر سن 1976 میں پابندی عائد کر دی گئی تھی، تاہم اب بھی لاکھوں افراد ایسے ہیں جو جبری مشقت کی زنجیروں میں جکڑے اینٹوں کی بھٹیوں، قحبہ خانوں اور بطور گھریلو ملازمین کام کرنے پر مجبور ہیں۔
آباد کاری کے مسائل
ایک اندازے کے مطابق میانمار سے بنگلہ دیش آنے والے مہاجرین کی تعداد نو لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران 40 ہزار کے قریب روہنگیا مہاجرین بھارت میں آباد ہوئے ہیں۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے گھر اب بھی جلائے جا رہے ہیں
میانمار کی آزادی کے ستر برس اور روہنگیا مہاجرین کا بحران
چار سال تک جبری مشقت کی چکی میں پستے عبدالرحمان نے رہائی کے بعد میوات میں رہنے کو ترجیح دی۔ یہ روہنگیا آبادی رکھنے والا بھارت کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ بھارت میں جبری مشقت کے خلاف کام کرنے والی ایک سرکاری تنظیم کے رکن نرمل گورانا کے مطابق میوات میں رہنے کو ترجیح اس لیے مل رہی ہے کیون کہ وہاں مقامی لوگ روہنگیا مسلمانوں کو رہنے کے لیے زمین دے دیتے ہیں۔
میوات میں روہنگیا مسلمانوں کی نو آبادی کے سربراہ، نور عالم کے مطابق اس علاقے میں لوگوں کو رہائش کے لیے زمین تو دی جاتی ہے لیکن ان لوگوں کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں کہ اس زمین پر اپنے لیے گھر بنانے کے لیے اخراجات برداشت کر سکیں۔
روہنگیا شناخت، مشکلات کا باعث
روہنگیا مسلمانوں کا ایک اور بڑا مسئلہ ان کی شناخت ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے روہنگیا کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے قانونی طور پر ملک بدر کرنے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں نوکریوں کی تلاش میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔
اس کی ایک مثال بیس سالہ دِل محمد ہیں جن کو صرف روہنگیا ہونے کی پاداش میں حال ہی میں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ انتہائی غربت کے شکار ان افراد کو نہ تو تعلیم کے مواقع میسر ہیں اور نہ ہی نوکری کے۔ اسی صورتحال کا فائدہ اٹھا اکثر وبیشتر ان مہاجرین کا استحصال کیا جاتا ہے۔ یہاں موجود افراد نہ تو کسی طرح کی سماجی مراعات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی شہریوں کے مساوی حقوق مانگ سکتے ہیں ۔
ان مہاجرین کے مطابق اُن کا بس اب ایک ہی خواب ہے کہ ایک دن آئے گا جب وہ واپس میانمار لوٹ کر جا سکیں گے۔