بھارت میں امیروں اور غریبوں کے مابین فرق مزید بڑھ گیا
8 دسمبر 2021عالمی سطح پر عدم مساوات سے متعلق 2021 کی رپورٹ کے مطابق بھارت ایک غریب اور ایک ایسا غیر مساوی ملک ہے، جہاں امیر لوگوں کے ہاتھوں میں بہت زیادہ دولت ہے اور اس دوڑ میں غریب طبقہ مزید پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق پہلے کے مقابلے میں اب اس فرق میں بہت اضافہ ہو گيا ہے۔
رپورٹ کیا کہتی ہے؟
عدم مساوات سے متعلق عالمی ادارے 'ورلڈ ان ایکوالٹی لیب' کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت کی 57 فیصد قومی دولت پر صرف دس فیصد امیر ترین بھارتی شہریوں کا قبضہ ہے جبکہ ملک کی پچاس فیصد آبادی مجموعی دولت کے 13فیصد پر ہی گزارا کرتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق رواں برس امیر ترین شہریوں نے اپنی دولت میں تاریخی اضافہ کیا جس سے امیر اور غریب طبقے کے درمیان دولت کے تناسب میں کافی فرق پیدا ہوا ہے۔ رپورٹ میں اس امر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ بھارت میں مزدوری کرنے والی خواتین کی آمدن دنیا کی دیگر خواتین مزدوروں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
رپورٹ میں سن 2020 کے دوران عالمی آمدن میں کمی پر بھی روشنی ڈالی گئی۔ اس کے مطابق آمدن میں تقریباً نصف کمی امیر ممالک میں ہوئی جبکہ باقی، کم آمدنی والے اور ابھرتی معیشتوں میں پائی گئی۔ اس کمی کو بنیادی طور پر "جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور خاص طور پر بھارت پر پڑنے والے اثرات سے منسوب کیا گيا ہے۔
'ورلڈ ان ایکوالٹی لیب' رپورٹ کہتی ہے، '' بھارت کے سب سے امیر ترین طبقے کے پاس ملک کی مجموعی قومی آمدن کا بائیس فیصد حصہ ہے جبکہ دس فیصد امیروں کے پاس ملک کی باقی 57 فیصد دولت ہے۔ بقیہ 50 فیصد آبادی کے پاس صرف 13 فیصد دولت بچتی ہے۔ بھارت ایک غریب اور انتہائی غیر مساوی ملک کے طور پر کھڑا ہے، جس میں ایک متمول اشرافیہ موجود ہے۔"
رپورٹ کے مطابق، بھارت کا متوسط طبقہ بھی نسبتاً غریب ہے جس کی اوسط دولت تقریبا آٹھ لاکھ روپے یا کل قومی آمدن کا 29.5 فیصد بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اعلی 10 فیصد اور سب سے اعلی ایک فیصد طبقہ 65 فیصد دولت کا مالک ہے، جن کی آمدن متوسط طبقے سے کہیں زیادہ ہے۔
بھارتی حکومت کے ایک ادارے 'نتی آیوگ' نے بھی حال ہی میں جو انڈیکس جاری کیا تھا۔ اس کے مطابق بھارت میں ہر چار میں سے ایک فرد کسی نہ کسی سطح پر غربت کا شکار ہے۔ اس فہرست میں ریاست بہار میں لوگوں کا سب سے زیادہ تناسب ہے۔ دوسرے نمبر پر ریاست جھار کھنڈ ہے جبکہ تیسرے پر ریاست اتر پردیش ہے، جہاں تقریبا چالیس فیصد سے زیادہ افراد غربت زدہ ہیں۔
وجوہات کیا ہیں؟
نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی صحافی سنجے کپور بھارت کی معاشی پالیسیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کے لیے موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ ان کے مطابق، "غریبوں کی فلاح و بہبود کے ادارے ختم کیے جا رہے ہیں۔ ہر شعبے کو پرائیویٹ کیا جا رہا ہے یہ فیکٹرز عدم مساوات کی بڑی وجہ ہیں۔ غریب، غریب تر ہو رہا ہے، جب کہ مالدار امیر ہوتے جا رہے ہیں۔"
سنجے کپور کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران بھارت میں بے روز گاری میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق عدم مساوات کی فہرست میں سب سے برا حال برکس گروپ کے تین ملک بھارت، جنوبی افریقہ اور برازیل کا ہے تاہم، "ان سب میں بھارت کا حال سب سے خراب ہے۔"
سنجے کہتے ہیں، "حکومت کا جو معاشی ماڈل ہے اس میں غریبوں میں راشن تو تقیسم کرنے کی پالیسی ہے تاہم، اس طبقے کی ترقی کے حوالے سے اس میں کچھ نہیں ہے۔ اور راشن مفت تقسیم کرنے کا مطلب تو یہی ہوا، کہ حالت اتنی بری ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ کھانے سے بھی محروم ہے۔"
'ورلڈ ان ایکوالٹی لیب' کی رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر عدم مساوات آج بھی اتنی ہی زیادہ نظر آتی ہیں جتنی کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عالمی آبادی کا سب سے غریب نصف حصہ "بمشکل کسی دولت کا مالک ہے" جس کے پاس مجموعی دولت کا صرف دو فیصد ہے، جب کہ دنیا کی امیر ترین 10 فیصد آبادی کے پاس تمام دولت کا 76 فیصد حصہ ہے۔