بھارت اور ایران کے درمیان تیل کا تنازعہ
30 دسمبر 2010اس تنازعے کے پس پردہ امریکی اثر و رسوخ کے کار فرما ہونے کی قیاس آرائیاں عام ہیں۔ بھارت ایرانی خام تیل کے سر فہرست خریداروں میں سے ایک ہے، جس سے تہران کو سالانہ بنیادوں پر لگ بھگ 12 ارب ڈالر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
بھارتی ذرائع نے عندیہ دیا ہے کہ دونوں ممالک کے مرکزی بینکوں کے اعلیٰ عہدیدار جمعہ کو ممبئی میں مل کر حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔ گزشتہ ہفتے بھارتی مرکزی بینک نے اعلان کیا تھا کہ مستقبل میں ایران کے ساتھ تجارت ایشین کلیئرنگ یونین ’اےسی یو‘ کے طے شدہ نظام کے تحت نہیں ہوگی۔ اس نظام کے تحت بھارت اور ایران سمیت پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ، میانمار، بھوٹان اور نیپال کے مرکزی بینک باہمی تجارتی معاہدوں کے تکنیکی معاملات نمٹاتے ہیں۔
اگر اس تنازعے کے فریقوں کے مابین اتفاق رائے نہیں ہوتا تو دونوں کو اس کا اقتصادی نقصان ہوسکتا ہے۔ ایران چونکہ پہلے ہی اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کی پاداش میں مختلف نوعیت کی پابندیوں کا شکار ہے جبکہ بھارت بڑی حد تک خام تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایران پر انحصار کرتا ہے۔ تجزیہ نگار سدھارت ورادا راجھن کے بقول بھارت اور ایران کے درمیان تیل کی تجارت ختم ہونے سے ممکنہ سیاسی فائدہ امریکہ کو جبکہ معاشی فائدہ چین اور روس کو ہوگا۔
بھارت نے خام تیل کی ادائیگیوں کے لئے ’اےسی یو‘ کے متبادل نظام کے طور پر کسی یورپی بینک کو نامزد کرنے کی پیش کش کی تھی۔ ایران اسے مسترد کرچکا ہے۔ ایرانی حکام کو یہ بات پسند نہیں آئی ہے کہ آخر بھارت کیسے یکطرفہ طور پر اےسی یو کے نظام کو بالائے طاق رکھنے کا فیصلہ کرسکتا ہے؟
فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس کے نائب سیکریٹری جنرل امبیکا شرما کے بقول دونوں ملکوں کے مرکزی بینک ڈالر اور یورو کے بجائے تیسری کرنسی کے ذریعے ادائیگیوں کے امکان پر غور کرسکتے ہیں۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ