1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت اور سری لنکا کے درمیان ماہی گیری کا تنازعہ

3 مارچ 2011

بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو اور سری لنکا کے درمیان سمندری علاقے میں ماہی گیری کا تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس کے باعث تامل ناڈو کے ماہی گیر اپنا روزگار کھو جانے کے ڈر میں مبتلا ہیں۔

https://p.dw.com/p/10Sn7
تصویر: AP

تامل ناڈو میں رواں برس مئی میں اسمبلی سطح کے انتخابات ہونے والے ہیں جبکہ وہاں کی سیاسی جماعتیں ماہی گیروں اور خواتین کے ساتھ حمایت کے اظہار کے لیے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں لگی ہیں۔

تاہم وہاں فشرمین ورکر یونین کی رہنما اجانتھا کا کہنا ہے کہ تامل ناڈو کے ساحل کے ساتھ بھارتی سمندری حدود میں مچھلی دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے ماہی گیروں کو سری لنکا کی حدود میں داخل ہونا پڑتا ہے: ’ہمیں ماہی گیری کے لیے سمندر میں زیادہ اندر تک جانے کی اجازت نہیں ہے، اگر تھوڑا دُور چلے بھی جائیں تو مچھلی ملتی ہی نہیں، اس طرح تو ماہی گیر ختم ہو جائیں گے۔‘

تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو تامل ناڈو کے ماہی گیروں اور خواتین کو خطے کے سمندری وسائل پر مکمل اختیار تھا۔ تاہم 1983ء میں سری لنکا میں ماہی گیری پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس کی وجہ تامل باغیوں کے ساتھ چلنے والا تنازعہ تھا، لیکن لڑائی ختم ہونے کے بعد سری لنکا کے شمالی علاقے میں ماہی گیری بحال ہو گئی۔

Karte Sri Lanka
سری لنکا اور بھارت کے درمیان ماہی گیری کے تنازعے پر جوائنٹ ورکنگ گروپ کا اجلاس رواں ماہ ہو رہا ہے

تاہم سری لنکا کے ماہی گیروں کو خدشہ ہے کہ بھارت کی جانب سے مچھلی پکڑنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ڈیپ سی ٹرالروں سے انہیں بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کا شکار تامل ناڈو کے ماہی گیر بنے ہوئے ہیں۔ بھارت میں تعینات سری لنکا کے نائب سفیر وی کرشنا مورتی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران سری لنکا کی بحریہ نے اپنے پانیوں میں ساڑھے چھ ہزار بھارتی ٹرالرز دیکھے ہیں: ’اصل مسئلہ یہ ہے کہ تامل ناڈو کے ماہی گیر، جس طرح کے فشنگ ٹرالر استعمال کرتے ہیں، ان پر سری لنکا میں پابندی ہے۔ وہ تو ان کے ذریعے گہرے سمندر تک سے مچھلی کے ساتھ ساتھ ہر چیز نکال لیتے ہیں۔ یہ چیز نقصان دہ ہے۔‘

دوسری جانب نئی دہلی حکومت نے سری لنکا کی سمندری حدود میں داخل ہونے والے اپنے ماہی گیروں کے خلاف طاقت کے استعمال پر اعتراض کیا ہے جبکہ چنائی میں قائم سینٹر فار ایشین اسٹڈیز کے تجزیہ کار وی سوریا نارائنن کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے دونوں حکومتوں کو کوششیں کرنا ہوں گی: ’ہمیں سری لنکا اور بھارت کے نمائندوں پر مشتمل پالک بے اتھارٹی قائم کرنی چاہیے، جس میں فشریز اور ماحولیاتی ماہرین بھی شامل ہوں۔‘

رواں برس جنوری میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان خارجہ سیکریٹریوں کی سطح کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دونوں جانب کے ماہی گیروں کے درمیان ایک معاہدہ ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے رواں‌ ماہ جوائنٹ ورکنگ گروپ کا بھی ایک اجلاس ہونے والا ہے۔

خیال رہے کہ جنوری میں دو بھارتی ماہی گیر سمندر میں مردہ پائے گئے تھے، جنہیں مبینہ طور پر سری لنکا کی بحریہ نے ہلاک کیا تھا۔

رپورٹ: ندیم گِل/ پیا چنداواکر (چنائی)

ادارت: امجد علی