1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: اپوزیشن اتحاد کا کئی نیوز اینکرز کے بائیکاٹ کا فیصلہ

جاوید اختر، نئی دہلی
15 ستمبر 2023

بھارت میں اپوزیشن اتحاد 'انڈیا‘ کی جانب سے 'منافرت انگیز‘ بحث کرانے والے ٹیلی وژن کے چودہ اینکروں کے بائیکاٹ کے فیصلے کو 'غیر معمولی قدم‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم میڈیا کے ایک حصے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4WMqk
Indien Ahmedabad | Coronavirus | Zuschauer TV-Ansprache Narendra Modi
تصویر: Reuters/A. Dave

اپوزیشن اتحاد 'انڈیا‘ کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے بائیکاٹ کی زد میں آنے والے 14ٹی وی اینکروں کی فہرست جاری کرتے ہوئے کہا، ''ہر شام پانچ بجے کچھ چینلوں پر نفرت کا بازار سجایا جاتا ہے۔ گزشتہ نو سالوں سے یہی چل رہا ہے۔ الگ الگ پارٹیوں کے کچھ ترجمان ان بازاروں میں جاتے ہیں، کچھ ماہرین جاتے ہیں، کچھ تجزیہ کار جاتے ہیں...لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم سب وہاں اس نفرت کے بازار میں گاہکوں کے طور پر جاتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہم نفرت بھرے بیانیے کی تائید نہیں کر سکتے۔ یہ بیانیہ سماج کو کمزور کر رہاہے۔ اگر آپ سماج میں نفرت پھیلاتے ہیں، تو یہ تشدد کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔ ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے۔"

انڈیا یا پھر بھارت، نیا تنازع کیا ہے؟

اس فیصلے کی حمایت اور مخالفت میں بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ صحافیوں کی تنظیموں کے علاوہ سیاسی جماعتیں بشمول حکمران بی جے پی بھی میدان میں کود پڑی ہیں۔

بھارت میں یہ شاید پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے ٹی وی اینکروں کے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے
بھارت میں یہ شاید پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے ٹی وی اینکروں کے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: Indian National Congress

بائیکاٹ کا فیصلہ پہلی بار

بھارت میں یہ شاید پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے ٹی وی اینکروں کے خلاف اس طرح کا قدم اٹھایا ہے۔ ذرائع کے مطابق کچھ ٹی وی چینلوں کا پوری طرح بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا جب کہ کچھ چینلوں کے اینکروں کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اپوزیشن اتحاد نے ان 14اینکروں کے ناموں کی فہرست بھی جاری کر دی ہے، جن کے پروگراموں میں 'انڈیا‘ کے رہنما نہیں جائیں گے۔

جن اینکرو ں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان میں ادیتیہ تیاگی، امن چوپڑا، امیش دیوگن، آنند نرسمہن، ارنب گوسوامی، اشوک سریواستو، چترا ترپاٹھی، گورو ساونت، ناویکا کمار، پراچی پاراشر، روبیکا لیاقت، شیو ارور، سدھیر چودھری اور سوشانت سنہا شامل ہیں۔

معروف بھارتی صحافی ساگریکا گھوش نے سوشل میڈیا ایکس پر لکھا، ''سیاسی جماعتوں کے ایک گروپ کا کچھ صحافیوں سے ٹکر لینا (صحافی نہیں بلکہ انتہائی گھٹیا درجے کے پروپیگنڈا باز) ایک زبردست مثال پیش کر رہا ہے۔ اچھا ہے کہ اس طرح کے چینلوں سے پوری طرح دور رہ کر ان کی آمدنی کے ذرائع کو بند کردیا جائے۔ آخر کار ملک کی کئی ریاستوں میں 'انڈیا‘ کی حکومت ہے، کیوں نہ ان کے اشتہارات بھی بند کر دیے جائیں۔‘‘

پون کھیڑا نے بعد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ہمیں مجبوراً یہ انتہائی تکلیف دہ فیصلہ کرنا پڑا۔ ہم کسی اینکر سے نفرت نہیں کرتے لیکن ہمیں ان کے مقابلے اپنے ملک سے زیادہ محبت ہے۔ اسی لیے ہم اپنی بساط بھر ایسا قدم اٹھانا چاہتے ہیں کہ نفرت کی دکانیں بند ہو جائیں۔‘‘

بائیکاٹ کے فیصلے پر نکتہ چینی

بعض صحافیوں اور ان کی تنظیموں نے 'انڈیا‘ کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ فیصلہ ماضی میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی قیادت والی کانگریس حکومت کی طرف سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی یاد دلاتا ہے۔

نیوز براڈکاسٹرز اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن (این بی ڈی اے) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'انڈیا‘ اتحاد کے اس فیصلے سے کافی تکلیف ہوئی ہے اور اس سے ایک خطرناک مثال قائم ہوسکتی ہے۔

این بی ڈی اے نے ایک بیان میں کہا، ''اپوزیشن اتحاد کے نمائندوں کو بھاررت کے کچھ اہم ٹی وی نیوز اینکروں کے پروگراموں میں جانے سے روکنا جمہوری قدروں کے خلاف ہے۔ یہ عدم رواداری کی علامت ہے اور پریس کی آزادی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔‘‘

بھارت: بی جے پی لیڈر کی شکایت پر معروف صحافیوں کے گھروں پر چھاپے

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''اپوزیشن اتحاد خود کو تکثیری اور پریس کی آزادی کا حامی قرار دیتا ہے لیکن اس کا یہ فیصلہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر چوٹ ہے۔‘‘

این بی ڈی اے کے صدر اور اے بی پی نیوز نیٹ ورک کے سی ای ا و اویناش پانڈے کا کہنا تھا، ''یہ فیصلہ میڈیا کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور اپوزیشن اتحاد جس اظہار رائے کی آزادی کی بات کرتا ہے، وہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ لیکن ہم اپنے ہر شو میں ہر ایک کو مدعو کریں گے۔‘‘

بی جے پی کا ردعمل

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈّا نے دعویٰ کیا ہے، ''اپوزیشن اتحاد نے نازی اسٹائل میں فہرست تیار کی ہے کہ کس کس کو نشانہ بنانا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان پارٹیوں میں ایمرجنسی دور کی ذہنیت اب بھی باقی ہے۔

اطلاعا ت و نشریات کے وزیر انوراگ ٹھاکر نے کہا، ''اس فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں جمہوریت پر یقین نہیں ہے۔ یہ لوگ اظہار رائے کی آزادی اور میڈیا کی خود مختاری پر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن آج انہوں نے خود ثابت کر دیا کہ وہ میڈیا کوکچلنے اور میڈیا اداروں پر دباو ڈالنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہ 'انڈیا‘ نہیں بلکہ 'گھمنڈیا‘ اتحاد ہے۔‘‘

بی جے پی کا الیکشن میں کامیابی کے لیے سوشل میڈیا انفلونسرز کا استعمال

بی جے پی کے متعدد دیگر رہنماؤں اور کئی ریاستی وزرائے اعلیٰ نے بھی ملکی اپوزیشن اتحاد کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔

دریں اثنا معروف بھارتی صحافی رویش کمار نے ایک طنزیہ ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ''میں پچھلے سات برسوں سے بائیکاٹ جھیل رہا ہوں، سات گھنٹے بھی نہیں ہوئے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کل وزیر اعظم مودی پہلی مرتبہ پریس کانفرنس کر ہی دیں گے۔ پریس کی آزادی کے لیے۔ جہاں یہ سارے لوگ سوال پوچھتے نظر آئیں گے۔‘‘