بھارت: ایک تو لڑکی، وہ بھی بہت ہی چھوٹی اور کمزور
18 جون 2015مشرقی بھارت کے ایک بہت غریب اور پسماندہ گاؤں میں جب ڈاکٹروں کو مٹی کے ایک ڈھیر میں سے ایسی ہی ایک بچی ملی تھی جو بمشکل سانس لے رہی تھی، جس کا قد بہت چھوٹا اور جسم نہایت لاغر تھا، تب ہی انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ تنہا چھوڑ دی گئی اس بچی کو دوبارہ ایک تندرست انسان بنانے کا عمل آسان نہ ہو گا۔
دو ماہ تک ڈاکٹروں نے اُس کی مکمل نگہداشت کی، اُسے مناسب غذا پہنچائی، تب جا کر پالک کا وزن اُس کی عمر کے حساب سے جتنا ہونا چاہیے تھا، اُس کا نصف ہو سکا تھا۔ ریاست بہار کے ایک کلینک کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ کے ایک بستر پر خستہ حال پڑی ہوئی غذائی قلت کی شکار پالک میں رونے تک کی سکت نہیں۔ وہ انتہائی ناتواں آواز میں روتی ہے اور آس پاس کے لوگوں کی توجہ چاہتی ہے۔
ناکافی غذائیت
گزشتہ دو عشروں سے بھارت میں اقتصادی نمو کی شرح بلندی پر ہے۔ اس کے باوجود پانچ سال سے کم عمر کے 46 فیصد بچے اوسط سے کم جسمانی وزن رکھتے ہیں۔ 48 فیصد بچے غیر کامل جسمانی نمو کا شکار ہیں جبکہ 25 فیصد صحت کی خرابی کے سبب دم توڑ دیتے ہیں۔ یہ تازہ اعداد و شمار بھارتی حکومت کی طرف سے منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ تاہم جس بارے میں بہت زیادہ شعور نہیں پایا جاتا، وہ یہ حقیقت ہے کہ پالک جیسی بچیوں کی اکثریت کو ترک کر دیا یا کہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انہیں خود ان کے والدین یا خاندان والے نظر انداز کرتے ہیں، ان لڑکیوں کو ان کے بھائیوں کے مقابلے میں کم غذائیت والی اور کم مقدار میں غذا دی جاتی ہے۔ ان حقائق پر سے پردہ اُٹھاتے ہوئے ہیلتھ ورکرز کہتے ہیں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کا پدر سری معاشرہ ہے۔ بھارت میں سرگرم طبی خیراتی ادارے ’ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ یا MSF نے ریاست بہار کے دھربنگا ضلع میں ایک مرکز قائم کر رکھا ہے۔ اس کے طبی سرگرمیوں کے مینیجر ضیاءالحق اس بارے میں کہتے ہیں، ’’پانچ ماہ کے ایک صحت مند بچے کا وزن پانچ کلو گرام یا 11 پونڈ ہونا چاہیے۔ تاہم ہمیں ایسے بھارتی بچے ملتے ہیں جن کی عمر دو سال ہوتی ہے اور وزن دو کلو گرام ہوتا ہے۔‘‘
ضیاءالحق نے مزید بتایا کہ ان کے مرکز میں بھرتی ہونے والے اور علاج مکمل ہونے سے پہلے ہی وہاں سے رخصت ہو جانے والے بچوں میں دو تہائی سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔
لڑکیوں کو کم ملتا ہے
دنیا بھر میں ہر سال ہلاک ہونے والے بچوں میں سے 3 ملین کی اموات کی وجہ اُن میں پائی جانے والی غذائیت کی کمی ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی بچوں کی کُل ہلاکتوں میں سے قریب نصف کا سبب قابلِ علاج بیماریاں بنتی ہیں جیسے کہ اسحال وغیرہ۔ یہ بیماریاں ان بچوں کے کمزور جسمانی مدافعتی نظام کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
ان عارضوں کے شکار جو بچے خوش قسمتی سے بچ جاتے ہیں، اُن کی نشو و نما ناقص ہی ہوتی ہے کیونکہ اُن میں طاقت، پروٹین اور معدنیات کی شدید کمی باقی رہ جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان بچوں کا دماغ اور جسم غیر کامل نمو کا شکار رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی جسمانی، ذہنی، تعلیمی اور اقتصادی صلاحیتوں اور کارکردگی میں کمزور رہ جاتے ہیں۔
بھارت میں بچوں کی صحت سے متعلق کیے جانے والے متعدد مطالعاتی جائزے اس امر کی مزید تصدیق کرتے ہیں کہ اس جنوبی ایشیائی معاشرے میں لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں ناقص اور ناکافی غذا کا شکار رہتی ہیں۔