بھارت: بچی کے پھول توڑنے کی سزا، برادری کا سماجی بائیکاٹ
27 اگست 2020یہ واقعہ یوپی کے ضلع قنوج میں گزشتہ روز پیش آیا تھا جس میں ایک 37 سالہ خاتون اور ان کے ایک ساتھی معذور شخض کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کے شوہر نے دو ماہ قبل خود کشی کر لی تھی جس کے بعد گاؤں کا ایک معذور شخص ان کی مدد کیا کرتا تھا۔ لیکن یہ بات مذکورہ خاتون کے گھروالوں کو پسند نہیں تھی اور اسی لیے ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا گیا ہے۔
اس سے متعلق ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون اور معذور شخص کے سروں کو زبردستی شیو کر کے ان کے منہ پر سیاہی پوتی گئی اور ان کے گلے میں جوتے اور چپلوں کی مالا پہنا کر گاؤں کی گلیوں میں سر عام پریڈ کروائی جا رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کے ساتھ اس طرح کے اہانت آمیز سلوک کے لیے چند افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خاتون کے ساتھ اس طرح کی زیادتی اس کے رشتے داروں نے کی ہے۔ ان کے مطابق جب گھروالوں نے خاتون کو معذور شخص کے ساتھ تنہا دیکھا تو انہیں پکڑ کران کے ساتھ زبردستی کی گئی۔ اس سلسلے میں آٹھ افراد کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے۔
بھارت میں حالیہ دنوں میں، خاص طور ریاست اترپردیش سے خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں، جن میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، انہیں قتل کرنے اور سرعام توہین آمیز سلوک کرنے جیسے واقعات شامل ہیں۔
انسانی حقوق کے علمبردار اور سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں جو ماحول ہے اس میں ہر جگہ، مسلمانوں، دلتوں اور قبائلیوں جیسے کمزور طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس میں بھی خواتین سب سے کمزور ہیں جن کا ہر طرح سے استحصال ہورہا ہے۔
چند روز قبل ہی کا واقعہ ہے ریاست اوڈیشہ میں 15 برس کی ایک لڑکی نے نام نہاد اعلی ذات کے ایک گھر کی کیاری سے پھول توڑ لیا تھا جس پر اونچی ذات کے لوگوں نے اس قدر ہنگامہ کیا کہ پورے گاؤں کی جانب سے دلت سماج کا بائیکاٹ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس کی جانب سے اس کی روک تھام کے لیے کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی۔
لڑکی کے والد نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ پھول توڑنے کے فوری بعد خاندان سے معذرت پیش کی گئی تھی۔ اور ''بچی کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے ہم نے سب کے سامنے معافی مانگی اور اسے رفع دفع کرنے کی گزارش کی تاہم دوسری برادری کے لوگوں نے کئی میٹنگیں طلب کیں اور اب ہمارا اس طرح بائیکاٹ کیا جارہا ہے کہ گاؤں کا کوئی بھی ہماری برادری سے بات تک نہیں کرتا اور ہم کسی بھی سماجی کام کاج میں حصہ نہیں لے سکتے۔''
سماجی کارکن رنجنا کماری کہتی ہیں کہ گزشتہ چھ برسوں میں مسلمانوں، دلتوں اور خواتین کے خلاف اس کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا جس کا مقصد اس سماج کے لوگوں کی توہین اور انہیں نیچا دکھانا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے خاص بات چیت میں انہوں نے کہا، ''اس کے لیے خواتین آسان نشانہ ہیں، انہیں ریپ کیا جاتا ہے، انہیں برہنہ کیا جاتا ہے اور پھر کئی واقعات میں تو اس کے بعد انہیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی پہلے بھی ہوتی تھی تاہم بی جے پی کی حکومت میں ایسی چیزوں کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔''
محترمہ کماری کہتی ہیں حکومت ان کی روک تھام کے لیے سنجیدہ نہیں ہے اور خاص طور پر یوپی میں تو اس کی روک تھام کا کوئی میکنزم ہی نہیں ہے۔ ''آخر یوپی سے ہی مسلسل ایسی خبریں کیوں آرہی ہیں؟ ریاست میں لاقانونیت کا بول بالا ہے اور دوسری بات کہ سماج میں ایسی چیزوں کو مسلسل فروغ دیا جارہا ہے۔ یوپی میں جنگل راج ہے جہاں خواتین کے تحفظ کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ پولیس تو ایسی شکایتیں نظر انداز کر دیتی ہے تاہم ایسے دیگر سرکاری ادارے بھی کام نہیں کر رہے جہاں خواتین کم سے کم اپنی شکایت ہی درج کرا سکیں۔''
انجنا کماری کہتی ہیں کہ یوپی میں خواتین کے تحفظ سے متعلق تمام حکومتی ادارے بند پڑے ہیں اور ریاستی سطح پر جو وومن کمیشن ہوتے ہیں وہ بھی اس وقت یوپی میں کام نہیں کر رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کارروائی نہیں کرتی ہے اور مجرم کھلے عام گھوم رہے ہیں، ایسے بد معاشوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ ''ملک میں اس وقت بہت خراب ماحول ہے اور اہل اقتدار کی یہی سب سے بڑی ناکامی ہے۔''