1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: تعلیم کا حق، قانون منظور ہو گیا

28 جولائی 2009

بھارت میں حکومت نے تعلیم کے فرو غ کے لئے Right to Education یا تعلیم کا حق کے نام سے ایک قانون منظور کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Iz48
بھارت میں بچوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتیتصویر: picture-alliance/ dpa

ماہرین تعلیم اور ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ صرف قانون بنادینے سے تعلیم کا فروغ ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لئے جہا ں سیاسی قوت ارادی کی ضرورت ہے وہیں تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ رقم مختص کرنا بھی ضروری ہے۔

Right to Education Bill 2009نامی اس قانون میں 6 سے 14 سال کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی ضمانت دی گئی ہے۔ متحدہ ترقی پسند اتحادحکومت نے اسے قومی اہمیت کا حامل قانون قرار دیا ہے اور انسانی وسائل کے فروغ کے مرکزی وزیر کپل سبل نے پارلیمان میں بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون 21ویں صدی میں بھارت کی سمت کا تعین کرے گا۔ بھارت میں جہاں خواندگی کی شرح اس وقت تقریباَ 66 فیصد ہے، اس بل کا عمومی طور پر خیر مقدم کیا گیا ہے۔

تعلیم کے فروغ کے لئے پچھلے 25 سال سے سرگرم غیرسرکاری تنظیم فرینڈز فار ایجوکیشن کے صدر فیروز بخت احمد نے اسے دیر آید درست آید قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’قانون اچھا ہے، لیکن اس سے تعلیم کے شعبے میں کتنی کامیابی ملتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا اور امید ہے کہ تعلیم کو ایک سمت ملے گی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت واقعہ تو یہ ہے کہ اس نظریے کی بنیاد اسی وقت پڑگئی تھی جب پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم تھے اور مولانا ابوالکلام آزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم لیکن بعض وزارتی اور انتظامی رکاوٹوں کی وجہ سے اسے اس وقت سے شروع نہیں کیا جاسکا۔

یوں توبھارت کی ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاسی رہنما تعلیم کی اہمیت پر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور اسے ملک کی ترقی کے لئے ناگزیر بتاتے ہیں لیکن اس معاملے میں وہ کتنے سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رواں ماہ جب پارلیمان کے ایوان بالامیں بل کی منظوری کے لئے ووٹنگ ہوئی تو اس وقت 250 رکنی راجیہ سبھا میں صرف 54 اراکین ہی موجود تھے۔ ان مئں بھی 29 اپوزیشن کے تھے۔ماہرین تعلیم کواس بات کا خدشہ ہے کہ اس قانون کا حشر بھی کہیں تعلیم کے فروغ کے لئے دیگر پروگراموں کی طرح ہی نہ ہوجائے۔ ماہر تعلیم محمد اشفاق احمدکہتے ہیں: ’’اصل تشویش اس کے عملی پہلو کے حوالے سے ہی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ یہ خواب کتنا شرمندہ تعبیر ہوتا ہے۔ عام طور پر تعلیم کے شعبے میں حکومت کی توجہ کم ہے۔ماہرین تعلیم ایک عرصے سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ تعلیم پر GDP کا کم سے کم چھ فیصد خرچ کیا جائے لیکن اب تک ایسا نہیں ہوسکا ہے‘‘۔

Dossier Unicef: Junge in einer Schule in Indien
اس قانون کے تحت بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی ضمانت دی گئی ہےتصویر: India/Sandip Biswas

حکومت اس وقت تعلیم کے مد میں مجموعی گھریلو پیداوار کا صرف تین فیصد خرچ کررہی ہے۔ حالانکہ رواں سال کے بجٹ میں اسکول اوراعلی تعلیم کے مد میں45 ملین روپے مختص کئے گئے ہیں جو گذشتہ بجٹ کے مقابلے 20 فیصد زیادہ ہیں جبکہ تعلیم کے قانون کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے اگلے سات برس میں دو ٹریلین روپے کاخرچہ ہو گا۔ تاہم ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ یہ ناکافی ہے۔جماعت اسلامی ہند میں شعبہ تعلیم کے سیکریٹری محمد اشفاق احمد کہتے ہیں : ’’حکومت اصولی طور پر تو تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے لیکن جب بجٹ میں اس کے لئے رقم مختص کرنے کی بات ہوتی ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم کی اہمیت، ضرورت اور افادیت کوبہر حال کم سمجھا جارہا ہےاور ہماری جو سیاسی جماعتیں ہیں اور حکومتیں ہیں وہ تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دیتی ہیں جس کی یہ متقاضی ہے‘‘۔

حالانکہ بھارتی پارلیمان نے 2001 میں ہی ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ تعلیم کوبنیادی حق تسلیم کیا تھا لیکن اس سلسلے میں قانون منظور کرانے میں آٹھ سال لگ گئے۔ جب ہم نے فیروز بخت احمد سے اس کی وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہا :’’ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ اتنی اہم فائلوں کو چند قدم چلنے میں برسوں لگ جاتے ہیں لیکن اس میں حکومت کی جو کوتاہی ہے وہ تو اپنی جگہ پر ہے لیکن اس میں ہم جیسے لوگوں کی بھی کوتاہی ہے جنہوں نے آج تک کوئی پریشر گروپ نہیں بنایا‘‘۔

یوں تو بھارت میں بنیادی یا پرائمری تعلیم کے فروغ کے لئے حکومت نے مختلف وقتوں میں کئی طرح کی اسکیمیں چلائیں۔ 2005 میں سرو سکچھا ابھیان شروع کیا جس کے تحت 205 ملین بچوں کوتعلیم دینے کا نشانہ مقرر کیا گیا اور اس کے لئے دس ہزار کروڑ روپے سے زائد کافنڈ طے کیا گیا ۔ لیکن بیشتر اسکیمیں اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ جب ہم نے ماہر تعلیم محمد اشفاق احمد سے پوچھا ایسا کیوں ہوتا ہے تو انہوں نے کہا :’’یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ان پروگراموں کو بالکل ہی کامیابی نہیں ملی۔ ہماری خواندگی کے فیصد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن جس طرح دوسرے شعبوں کا حال ہے کہ جتنے وسائل مختص کئے جاتے ہیں وہ ٹھیک طور پر استعمال نہیں ہوتے اور صحیح طور پر مستحق لوگوں تک نہیں پہنچتے، تعلیم کا معاملہ بھی ویسا ہی ہے۔ بعض مقامات پر تو صرف خانہ پری ہوجاتی ہے‘‘۔

Dossier Unicef: Schule in Indien
نئے قانون کے تحت تعلیم کے فروغ کے لئے بڑے پیمانے پر کام کیا جائے گاتصویر: UNICEF India/Sandip Biswas

تعلیم کے فروغ کے لئے سرگرم فیروز بخت احمد کا خیال ہے کہ تعلیم کے حوالے سے حکومت کی تمام اسکیموں کی خاطر خواہ تشہیر کی جانی چاہئے۔ اخبارات میں اشتہارات دئے جانے چاہئیں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ا س کی تشہیر کی جانی چاہئے تاکہ عوام اس سے خاطر خواہ استفادہ کرسکیں۔

’’تعلیم کا حق‘‘ قانون کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں پرائیوٹ اسکولوں کواس بات کے لئے پابند کیا گیا ہے کہ اپنے یہاں غریب اور کمزور طبقے کے بچوں کو 25 فیصد ریزرویشن دیں گے اور ایسا نہ کرنے والے اسکولوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور ان کی منظوری ختم کی جاسکتی ہے۔ حالانکہ پہلے بھی عدالتیں اس طرح کا حکم دے چکی ہیں لیکن کروڑوں روپے کی زمین حکومت سے کوڑیوں میں حاصل کرنے والے پرائیوٹ اسکول اس طرح کے حکم سے بچنے کے لئے طرح طرح کے بہانے تلاش کرلیتے ہیں۔ فیروز بخت احمد کا کہنا ہے کہ اس قانون کو نافذ کرنے کے لئے حکومت کو سختی سے کام لینا ہوگا۔

’’حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کم از کم دوچار اسکولوں کی منظوری ختم کردی جانی چاہئے تاکہ دوسرے اسکولوں کو اس سے سبق ملے کیوں کہ غریب بچوں کا پورا حق بنتا ہے کہ وہ بھی اچھے اسکولوں میں جائیں‘‘۔

ماہر تعلیم محمد اشفاق احمد کا خیال ہے کہ تعلیم کا حق قانون ہو یا تعلیم کے فروغ کی کوئی بھی اسکیم یہ اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب حکومت کے ساتھ ساتھ سماج کے ہر طبقے کے لوگ اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھیں۔

’’ پچھلے ساٹھ سال کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ صرف حکومت کی کوششوں سے ہی تعلیم کے نشانے پورے نہیں ہوسکتے۔اس میں سرکاری محکموں، غیرسرکاری تنظیموں، نجی اداروں اور عوام سب کا تعاون ضروری ہے اس کے بعد ہی یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر