بھارت: حجاب تنازعے پر شبانہ اعظمی اور کنگنا رناؤت میں تکرار
11 فروری 2022بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے کے تنازعے پر جہاں گزشتہ چند روز سے بحث جاری ہے، وہیں پر اب یہ موضوع بین الاقوامی بحث کا حصہ بھی بن چکا ہے۔ بالی وڈ کی سرکردہ شخصیات کی جانب سے بھی اس پر رائے کا اظہار ہوتا رہا ہے تاہم اب اس میں معروف اداکارہ شبانہ اعظمی اور کنگنا رناؤت بھی شامل ہو گئی ہیں۔
اداکارہ کنگنا رناؤت نے حجاب کے تنازعے پر اپنے رد عمل میں جمعرات کے روز کہا، ''اگر آپ ہمت ہی دکھانا چاہتے ہیں، تو افغانستان میں حجاب نہ کر کے اپنے حوصلے کا مظاہرہ کریں۔‘‘ ان کا اشارہ اس مسلم طالبہ مسکان کی جانب تھا، جس نے سخت گیر ہندوؤں کے ایک بڑے ہجوم میں تنہا گھرے ہونے کے باوجود نعرے لگائے تھے۔
اس سے قبل اس متنازعہ اداکارہ نے انسٹاگرام پر خواتین کی دو متضاد تصاویر کا ایک کولاژ بھی شیئر کیا، جس میں سے ایک میں کچھ خواتین نقاب پوش تھیں جبکہ دوسرے میں خواتین نے سوئمنگ سوٹ پہن رکھے تھے۔ اس پر انہوں نے لکھا تھا، ''آزاد ہونا سیکھیں، خود کو پنجرے میں بند نہ کریں۔‘‘
اداکارہ کنگنا رناؤت اکثر سخت گیر ہندوؤں کے نظریات کی حمایت میں اپنے متنازعہ بیانات کے سبب سرخیوں میں رہتی ہیں اور اسی وجہ سے ٹوئٹر نے ان کا اکاؤنٹ منسوخ بھی کر دیا تھا۔ اس بار ان کے ان بیانات کا جواب معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی نے دیا۔
جمعے کے روز اپنے انسٹاگرام ہینڈل پر کنگنا رناؤت کی پوسٹ کے بعض حصے شیئر کرتے ہوئے شبانہ اعظمی نے سوال کیا، ''اگر میں غلط ہوں تو مجھے درست کر دیں، لیکن افغانستان ایک مذہبی ریاست ہے اور جب میں نے آخری بار چیک کیا تھا، اس وقت تک بھارت ایک سیکولر جمہوری ملک تھا!‘‘
شبانہ اعظمی کی پوسٹ پر ایک شخص نے تبصرہ کیا، ''ہم لوگوں کو تعلیم یافتہ نہیں بنا سکتے، میڈم آپ کا شکریہ۔‘‘ ایک اور صارف نے لکھا، ''وہ شاید یہ فرق نہیں سمجھتی ہیں!‘‘ ایک اور صارف نے جواب دیا، ''سب سے بڑی جمہوریت (کاغذ پر ہی سہی) اور تنوع کے لحاظ سے بھی سب سے بڑا۔‘‘
کنگنا رناؤت پر تنقید کرتے ہوئے ایک اور شخص نے لکھا، ''کنگنا سے کسی معقول یا منطقی بات کی توقع کرنے کا تو کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔‘‘
اس سے قبل معروف شاعر اور شبانہ اعظمی کے شوہر جاوید اختر نے بھی اس تنازعے سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا، ''میں کبھی بھی حجاب یا برقعے کے حق میں نہیں رہا اور میں اب بھی اس پر قائم ہوں۔ لیکن اس کے باوجود میرے دل میں ان غنڈوں کے ہجوم کے لیے گہری توہین و حقارت کے سوا کچھ بھی نہیں، جنہوں نے لڑکیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو ڈرانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ کیا ان کا مردانگی کا نظریہ یہی ہے؟ کتنے افسوس کی بات ہے۔‘‘
جاوید اختر کی اس پوسٹ پر بعض سخت گیر ہندوؤں نے اعتراض کیا، تو انہوں نے اس کا جواب یوں دیا۔ ''میرے جیسے سیکولر لوگوں کو برقعے اور حجاب کی مخالفت کرنے کا حق ہے (ہم نے ہمیشہ ایسا کیا بھی ہے) لیکن ان لوگوں کو ہرگز نہیں، جن کے کندھوں پر زعفرانی شالیں ہیں۔‘‘
جاوید اختر نے مزید لکھا، ''کیا وہ سب اسی نظریے کے نہیں ہیں جنہوں نے بنگلور کے ایک ریستوراں میں کافی پینے کی وجہ سے ہندو لڑکیوں پر تشدد کیا تھا؟‘‘
بھارت میں حکمران جماعت بی جے پی کی رکن پارلیمان ادارکاہ ہیما مالینی نے اس بارے میں کہا، ''ہم اسکول کی تعلیم کے حق میں ہیں اور وہاں مذہبی معاملات کو نہیں لایا جانا چاہیے۔ ہر اسکول میں یونیفارم ہے، جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ آپ اسکول سے باہر، جو چاہیں پہن سکتے ہیں۔‘‘
بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے بعض اسکولوں اور کالجوں میں گزشتہ تقریباﹰ ایک ماہ سے اسکارف پہننے والی مسلم طالبات کو ان اداروں میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ پہلے ان اداروں کی صرف انتظامیہ ہی اسکارف پہننے کی مخالف تھی اور بعد میں سخت گیر ہندو تنظیمیں بھی حجاب کی مخالفت میں سڑکوں پر آ گئیں۔
اس کے بعد اس معاملے میں سخت گیر ہندوؤں کی جانب سے کیے گئے مظاہروں کے دوران پر تشدد واقعات بھی پیش آئے جس کی وجہ سے انتظامیہ نے تمام اسکول اور کالج بند کر دیے۔
اب یہ معاملہ عدالت میں پہنچ چکا ہے اور کرناٹک ہائی کورٹ میں اس کی سماعت ہو رہی ہے۔ عدالت نے اس کی سماعت 14 فروری تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔ ہائی کورٹ نے طلبا سے کہا ہے کہ جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہو جاتا، تب تک 'مذہبی لباس‘ پہننے پر اصرار نہ کیا جائے۔