بھارت: حقوق انسانی کی تنظیموں کے خلاف گھیرا تنگ
6 اکتوبر 2020انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور تنازعات کو سلجھانے سے متعلق غیر سرکاری تنظیم سینٹر فار ڈائیلاگ کا کہنا ہے حکومت کی طرف سے عطیات دینے والوں سے متعلق آئے دن کی پوچھ تاچھ اور اب ان کے ذریعے دی جانے والی مالی امداد کو بینک اکاونٹ میں جمع ہونے سے روکنے پر ان کا اسٹاف مالی اور ذہنی پریشانیوں کا شکار ہو گیا تھا۔
سن 2004ء میں، جب کانگریس کی قیادت میں متحدہ ترقی پسند اتحادکی حکومت اقتدار میں آئی، تو بطور وزیر اعظم من موہن سنگھ برسر اقتدار آئے۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی کی قیادت میں ایک قومی صلاح کار کونسل کا قیام بھی عمل میں آیا۔ مسز گاندھی نے اس کونسل میں سول سوسائٹی کے چنیدہ اور معتبر اراکین کو ممبر بنایا تھا۔ یعنی پہلی بار حکومت اور سول سوسائٹی کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر ایک اشتراک کی گنجائش پیدا کی گئی۔
اس دس سالہ دور میں جو بھی تاریخی اور تقدیر بدلنے والے قوانین، جیسے معلومات کا حق قانون، دیہی روزگار گارنٹی قانون اور پنچایتوں اور بلدیاتی اداروں میں خواتین کے لیے 50 فیصد نشستوں کو محفوظ کرنا، جیسے متعدد فیصلے لیے گئے، وہ اسی کونسل کی دین تھے۔
چونکہ مسز گاندھی جیسی طاقتور شخصیت اس کی سربراہ تھیں، اسی لیے افسران بھی کونسل کی میٹنگوں میں دل و جان سے شرکت کر کے سول سوسائٹی اراکین سے گفت و شنید کر کے عوامی امنگوں کے مطابق قوانین ڈھالتے تھے۔
لیکن 2014ء کے بعد نہ صرف اس کونسل کو تحلیل کیا گیا بلکہ حکومتی ادارہ، یعنی منصوبہ بندی کمیشن کی بھی بساط لپیٹی گئی۔ یہ کمیشن بھی کم و بیش حکومتی کام و کاج پر نظر رکھنے کا کام کرنے کے علاوہ سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔
فرانسیسی تاریخ دان اور فلسفی فرانسواں ماری آروئے المعروف وولٹیئر نے جمہوریت کی روح کے بارے میں کہا تھا کہ ”میں آپ کی بات رد کر سکتا ہوں، مگر مرتے دم تک آپ کے بولنے کے حق کی حفاظت کرتا رہوں گا۔‘‘
اٹھارویں صدی کے آغاز سے ہی دنیا کے مختلف ممالک کے دستور میں آزادی اظہار رائے کے حق کو تسلیم کر کے اس میں آزادی تحریر و تقریر اور تخلیق کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس کو جمہوری اقدار کا نگہبان سمجھا جانے لگا۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو روایات اٹھارویں صدی میں پروان چڑھیں اور بیسویں صدی کے اختتام تک، جن کو صحیفوں کا درجہ دیا جانے لگا تھا، اکیسویں صدی میں اب مسمار ہو رہی ہیں۔
اظہار رائے کی آزادی، بذریعہ تقریر ہو یا تحریر، پر قدغنوں کا ایک سلسلہ سا لگنا شروع ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہی آزادی قابل قبول ہو گی، جو اکثریت کو منظور ہو گی۔ تکثیری معاشرے کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا، جو آزادی کا نقیب تھا، کو بھی اب اکثریتی آواز کو مزید جلا دینے، مزاحمتی اور متبادل آواز کو بند کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کے طول و عرض میں آئے دن پولیس عجلت میں ایسے افراد کے خلاف کیس درج کر رہی ہے، جو باد مخالف کو کسی بھی طرح کا موہوم سا چیلنج بھی پیش کر رہے ہوں۔
سول سوسائٹی کو نشانہ بنانے کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا کھل کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کے کارکنان کے لیے آرام کرسی دانشور، لیوٹن دہلی یا خان مارکیٹ گینگ جیسے نام استعمال کیے جاتے ہیں۔ دہلی شہر کا وسط یعنی برطانوی آرکیٹیکٹ لارڈ لیوٹن کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے وہاں رہنے والوں کو لیوٹنز کہتے ہیں۔ مگر اس کو منفی انداز میں سول سوسائٹی کے اراکین سے منسوب کیا گیا تاکہ یہ بتایا جائے کہ یہ افراد بس خان مارکیٹ کے کیفے خانوں تک ہی محدود ہیں اور ان کا ملک کے اصل مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
اس تاثر کو عام کرنے میں حکومت کا کردار کچھ کم نہیں ہے۔ سول سوسائٹی پر ایک اور کاری وار حال ہی میں اختتام پذیر پارلیمنٹ کے اجلاس میں کیا گیا، جب اپوزیشن کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر کسی بحث و مباحثہ کے بغیر ہی غیر ملکی فنڈنگ کے متعلق قانون فارن کنٹری بیوشن ایکٹ میں ترمیم کی گئی۔
اب غیر ملکی فنڈنگ کی حقدار وہی غیر سرکاری یا رضا کار تنظیم ہو گی، جو حکومت یا برسراقتدار جماعت کے لیے کام کرنے پر تیار ہو۔ حکومت کو یہ جاننے کا حق تو حاصل ہے کہ آیا بیرون ملک سے آئے عطیات کا خاطر خواہ استعمال ہو اکہ نہیں، مگر اس کو شکنجے کی طرح استعمال کرنا جمہوری روایات کو زیب نہیں دیتا ہے۔
پہلے بھی اس قانون کو، جب وہ اتنا سخت بھی نہیں تھا، عالمی حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے خلاف کئی بار استعمال کیا گیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران اس کے عہدیداروں کو آئے دن پولیس اور ٹیکس افسران کے سامنے پیش ہونا پڑتا تھا۔
پچھلے ماہ ہی بھارت میں اس کے سابق سربراہ آکار پٹیل کو گجرات صوبہ کی پولیس نے گرفتار کیا۔ گو کہ ان کو بعد میں ضمانت مل گئی مگر یہ ایک ہلکا سا اشارہ ہے کہ جب ایک عالمی تنظیم کے عہدیدار کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آسکتا ہے تو قصبوں اور دیہات میں کام کرنے والے کارکنان کی کیا اوقات ہے؟
ایمنسٹی کے مطابق اس کے اکاونٹ سیل کر دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ملازمین کو مشاہرہ ہی نہیں دے پا رہے تھے۔ اس عالمی تنظیم سے حکومتیں خائف تو ہو سکتی ہیں لیکن اس کی رپورٹیں، دستاویزات اور اعداد و شمار کی معتبریت پر آج تک کوئی انگلی نہیں اٹھا سکا ہے۔ بھارت میں اس کی موجودگی ملک کے لیے ہی باعث تفخر تھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے اپنی بساط لپیٹ کر اسٹاف کو خیر باد تو کر دیا ہے۔ مگر نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ بھارت جیسا کثیر الجہتی ملک اور اس کا تکثیری معاشرہ زیادہ دیر تک ایمنسٹی جیسی تنظیم کے لیے اپنی سرحدیں بند نہیں رکھ سکتا ۔
وہ صبح دوبارہ ضرور آئے گی، جب سول سوسائٹی سے وابستہ افراد ایک بار پھر ملک اور جمہوری اقدار کے نگہبان بن کر میدان عمل میں دکھائی دیں گے۔ بقول ساحر لدھیانوی:
جب امبر جھوم کے ناچے گا
جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جگ جگ سے
ہم سب مر مر کر جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دھن میں
ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
وہ صبح کبھی تو آئے گی