بھارت، خواتین کھلاڑیوں کی جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ
14 جون 2022بھارت میں کھیلوں کے فروغ اور نگرانی کے ادارے سپورٹس اتھارٹی آف انڈیا (ایس اے آئی) نے گزشتہ ہفتے سائیکلنگ کے چیف کوچ آر کے شرما کو ایک خاتون سائیکلسٹ کی شکایت پر ان کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔ اس سائیکلسٹ نے شرما پر سلووینیا کے ایک تربیتی دورے کے دوران 'نامناسب رویہ‘ اپنانے کا الزام لگایا تھا۔
اس خاتون ایتھلیٹ کا کہنا تھا کہ کوچ نے اسے یہ کہہ کر اپنے ساتھ ہوٹل کےکمرے میں رہنے پر مجبور کیا کہ دو افراد کے لیے ایک کمرہ بک کیا گیا ہے۔ ایک تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں شرما کے خلاف لگائے گئے الزامات کو درست قرار دیا گیا ہے۔
اسی ہفتے جب سائیکلنگ کوچ کا معاملہ منظر عام پر لایا گیا، بھارت کی صف اول کی ایک خاتون کشتی ران نے اپنے کو چ پر جرمنی میں تربیت کے دوران اسے ''بے آرام‘‘ کرنے کا الزام لگایا۔ اس ایتھلیٹ نے کئی بار سیلنگ فیڈریشن کے ساتھ مسئلہ اٹھانے اور وہاں سے کوئی جواب نہ ملنے کے بعد مداخلت کے لیے ایس اے آئی کا رخ کیا۔ یہ تازہ ترین واقعات ان بے شمار الزامات اور واقعات میں سے ہیں، جو گزشتہ چند برسوں میں تسلسل کے ساتھ سامنے آتے رہے ہیں۔ گزشتہ سال جولائی کے مہینے میں سات خواتین ایتھلیٹس نے مشہور اسپورٹس کوچ پی ناگ راجن کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے۔
ایک اور واقعے میں ایک 19 سالہ خاتون کھلاڑی نے الزام لگایا کہ ناگ راجن نے اسے اور اس کے خاندان کے افراد کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ناگ راجن چاہتا تھا کہ وہ خاتون کھلاڑی اس کے خلاف کوئی کارروارئی کر کے مسائل پیدا نہ کرے۔ اس خاتون کی شکایت پر ناگ راجن کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
کوچنگ کلچر، آواز اٹھانے میں مشکلات
گلوبل آبزرویٹری برائے صنفی مساوات اور کھیل کی سی ای او پیوشنی مترا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کھیلوں کے پس منظر میں کوچ اور ایتھلیٹ کے رشتے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے کھلاڑیوں کے لیے آواز بلند کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔‘‘
پیوشنی مترا نے مزید کہا، ''کھیل میں تابعداری کا کلچر ہے اور اس لیے گرومنگ عام ہو جاتی ہے، جس سے کھلاڑیوں کے لیے آگے آنا اور شکایت کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
مترا نے کہا، ''کھیلوں میں خاموش تماشائی بن کر کھڑے رہنے کا کلچر بھی ہے۔ لوگ بدسلوکی کا علم ہونے کے باوجود کارروائی نہیں کرتے۔ یہ خاموش تماشائی خاص طور پر طاقتور ملزم کے حق میں خاموشی برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔‘‘
معلومات تک رسائی کے حق کے تحت جمع کرائی گئی درخواست کے نتیجے میں جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2010 سے سن 2020 کے درمیان ایس اے آئی کو جنسی حراسانی کی 45 شکایات موصول ہوئی تھیں، جن میں سے 29 کوچز کے خلاف تھیں۔ تاہم ان شکایات پر کارروائی کی شرح بہت کم تھی۔ پانچ کوچز کو تنخواہوں میں کمی کے ساتھ جرمانہ بھی کیا گیا، ایک کو معطل اور دو کے معاہدے ختم کر دیے گئے۔
ایک صف اول کے کھلاڑی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طویل تفتیشی عمل کی وجہ سے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔ کچھ کوچز کو نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ بدسلوکی اب بھی بھارتی کھیلوں کے ماحول کا حصہ ہے، خاص طور پر ٹیم کے طور پر کھیلے جانے والے کھیلوں میں۔‘‘
مزید ایتھلیٹس کیسے آگے آسکتے ہیں؟
56 تسلیم شدہ قومی کھیلوں کی فیڈریشنوں میں سے صرف چند کے پاس داخلی شکایات کی تفتیش کے لیےکمیٹیاں ہیں، جو خاص طور پر جنسی ہراسانی کی تحقیقات کرتی ہیں۔
بہت سے کھلاڑی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بھارتی کھیلوں میں جنسی استحصال عام ہے۔ تاہم متاثرین کے لیے برسوں تک صدمے سے گزرنے کے بعد مجرموں کے نام سامنےلانا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔
لیجنڈری ہندوستانی ایتھلیٹ انجو بوبی جارج کو 2017ء میں قومی کھیلوں کے لیے ایک یکساں ضابطہ تیار کرنے کے لیے نو رکنی حکومتی پینل کا حصہ بننے کا کام سونپا گیا تھا۔
اس نے ہندوستان بھر میں خواتین کھلاڑیوں کے لیے ایک خصوصی ہیلپ لائن قائم کرنے کی سفارش کی، جسے ایس اے آئی میں ایک سینئر خاتون اہلکار کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔
جارج نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی تک کچھ نہیں ہوا اور اس پر ابھی بھی کارروائی ہو رہی ہے۔ اس داغ سے کھیلوں کو خطرہ لاحق ہے اور اسے دھونے کے لیے حل موجود ہیں لیکن عمل کرنے کے لیے عزم ہونا ضروری ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''ٹیم ایونٹس میں خاص طور پر مرد کوچ اور معاون عملے کی موجودگی میں بدسلوکی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘
جارج نے گزشتہ برس عالمی ایتھلیٹکس کی طرف سے ٹیلنٹ نکھارنے اور ہندوستان میں نوجوان لڑکیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے اور صنفی مساوات کے لیے لڑنے کی ترغیب دینے پر سال کی بہترین خاتون کا ایوارڈ جیتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کے اداروں کو قیادت کرنا ہو گی اور حالات کو درست کرنا ہو گا تاکہ کمزور کھلاڑی آگے آنے اور شکایت کرنے میں محفوظ محسوس کریں۔
نظام میں تبدیلی کیسے لائی جائے؟
مسابقتی کھیلوں میں انتخاب کے واضح معیار کی عدم موجودگی بھی خواتین ایتھلیٹس کو بدسلوکی کے خلاف آواز اٹھانے سے روکتی ہے۔ اگر وہ آواز اٹھائیں تو یہ عمل ممکنہ طور پر ان کے کیریئر کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
کھیلو انڈیا اسٹیٹ سینٹر آف ایکسیلینس کے کھیل اور ورزش کی سائنس کے سربراہ پی ایس ایم چندرن کے مطابق خواتین کھلاڑیوں کو تحفظ دینے کا ایک راستہ یہ ہے کہ خواتین سلیکٹرز کو ہی ٹیم کے مقابلوں کے انتخاب کی ذمہ داری سونپی جائے۔
بہت سے کھلاڑیوں اور کھلاڑیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت کو کھیلوں کے تمام اداروں کے لیے یہ لازمی قرار دینا چاہیے کہ وہ اندرونی شکایتی کمیٹیوں کی کارکردگی کی وضاحت کرنے والی باقاعدہ رپورٹیں جاری کریں اور ان کی تفصیلات تنظیم کی ویب سائٹ پر بھی شائع کریں۔
مرلی کرشنن (ش ر / اا(