بھارت: زرعی قوانین کے خلاف ملک گیر مظاہرے
25 ستمبر 2020ہڑتال، ریل اور راستہ روکو تحریک اور مظاہروں کی وجہ سے ہریانہ، بہار، اترپردیش، مہاراشٹر، راجستھان، تمل ناڈو اور کرناٹک سمیت متعدد ریاستوں میں نقل و حمل اور معمولات زندگی پر اثر پڑا ہے تاہم بھارتی صوبہ پنجاب اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔
کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کے مدنظر پنجاب سے گزرنے والی متعدد ٹرینیں منسوخ کردی گئی ہیں۔ ریاست کے کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر پولیس فورس تعینات کی گئی ہے۔ کئی مقامات پر مظاہرین نے قومی شاہراہوں کو جام کر دیا ہے اور ریلوے لائنوں پر بیٹھ گئے ہیں۔
شمالی بھارت کے علاوہ جنوبی بھارت کے کئی علاقوں میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں۔ مظاہرین نے کرناٹک ۔ تمل ناڈو قومی شاہراہ کو بھی جام کردیا ہے۔
حلیف جماعت بھی مخالف
کسانوں کی تنظیموں کے علاوہ اپوزیشن کی متعدد جماعتیں بشمول کانگریس پارٹی، ترنمول کانگریس، راشٹریہ جنتا دل اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی ملک گیر بند اور مظاہروں کی حمایت کررہی ہیں۔ بالی ووڈ کے کئی اداکاروں نے بھی کسانوں کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔
کسانوں کی زبردست ناراضگی کو دیکھتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کی قدیم حلیف جماعت شرومنی اکالی دل بھی ان متنازعہ قوانین کی مخالفت کر رہی ہے۔ مودی کابینہ میں شامل شرومنی اکالی دل کی وزیر ہرسمرت کور پہلے ہی احتجاجاً استعفی دے چکی ہیں۔
غلامی کی نئی عبارت
کسانوں کی تنظیم آل انڈیا کسان سبھا کے قومی جنرل سکریٹری اتول کمار انجان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے اپنی سالگرہ کے موقع پر کسان مخالف قانون لاکر ملک کی غلامی کی ایک نئی عبارت لکھ دی ہے۔ انہوں نے ان قوانین کو زراعت کا کارپوریٹائزیشن قراردیتے ہوئے کہا”اس سے زرعی مصنوعات کی بلیک مارکیٹنگ میں اضافہ ہوگا، کسان اپنی پیداوار کم قیمتوں پر فروخت کرنے کے لیے مجبور ہوں گے اور سرمایہ داروں کے گودام کسانوں کے مصنوعات سے بھر جائیں گے۔"
بڑے تاجر فائدے میں
آل انڈیا کسان سبھا کے قومی صدراشوک دھوالے کا کہنا تھا کہ حکومت صرف کسانوں پر ہی نہیں بلکہ صارفین اور عام لوگوں کے خلاف ایک بڑا حملہ کیا ہے۔ لازمی اشیاء قانون میں ترمیم کے بعد اب ذخیرہ اندوزی بڑھ جائے گی اور صرف بڑے کاروباریوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ بلیک مارکیٹنگ پھیلے گی۔ منڈیوں میں مال فروخت کرنے کے حوالے سے دوسرے قانون اے پی ایم سی کو ختم کردینے کے بعد اب پورے ملک کا زرعی بازار بڑے بڑے کارپوریٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔ کسانوں کو ان کی پیداوار کی ملنے والی کم ا ز کم قیمت (ایم ایس پی)تو بالکل ہی نہیں ملے گی۔ جب کہ کانٹریکٹ فارمنگ سے متعلق قانون نافذ ہوجانے کے بعد، ٹھیکے پر کھیتی کرنے سے کسان غلام بن جائیں گے۔ کسانوں کو کوئی اختیار نہیں ہوگا اور کارپوریٹ اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مرضی چلائیں گی۔
کسانوں کا خدشہ
خیال رہے کہ زراعت کے حوالے سے یہ تینوں قوانین بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں منظور کرلیے گئے ہیں اور اب ان پر صرف بھارتی صدر کی رسمی توثیق کی خانہ پری باقی رہ گئی ہے۔ ان کے دستخط کے ساتھ ہی اسے نافذ کردیا جائے گا۔ وزیر اعظم مودی نے اسے کسانوں کے لیے تاریخی قدم قرار دیا ہے۔
ان قوانین کے ناقدین کا تاہم کہنا ہے کہ ان سے صرف دلالوں اور بڑے تاجروں کو فائدہ ہوگا۔ چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کسانوں کو اپنی پیداوار کی مناسب قیمت نہیں مل سکے گی۔
حکومت گوکہ کہہ رہی ہے کہ کسانو ں کو ایم ایس پی ختم نہیں کیا جائے گا لیکن اس نے نئے قوانین میں اس کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ چونکہ یہ قانون میں شامل نہیں ہے اور حکومت اسے اسکیم قرار دے رہی ہے اس لیے حکومت جب چاہے گی صرف ایک جملے کا حکم نامہ جاری کرکے اس سہولت کو واپس لے لے گی۔
’ناانصافی نہیں ہونے دیں گے‘
کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے بھارت بند کی حمایت کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ”خامیوں سے پر جی ایس ٹی نے ایم ایس ایم ای (مائیکرو، چھوٹے اور درمیانہ صنعتوں) کو تباہ کر دیا۔ نئے زرعی قوانین کسانوں کوغلام بنادیں گے۔"
کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے کسانوں کی حمایت کرتے ہوئے ٹوئٹ میں کہا ''کسانوں سے ایم ایس پی چھین لی جائے گی۔ انہیں کانٹریکٹ فارمنگ کے ذریعہ کھرب پتیوں کا غلام بننے پر مجبور کیا جائے گا۔ نہ قیمت ملے گی نہ عزت۔ کسان اپنے ہی کھیت پر مزدور بن جائے گا۔ بی جے پی کا زرعی بل ایسٹ انڈیا کمپنی حکومت کی یاد دلاتا ہے۔ ہم نا انصافی نہیں ہونے دیں گے۔"
بالی ووڈ کی حمایت
دریں اثنا کسانوں کے آج کے مظاہرے کی بالی ووڈ کے متعدد اداکاروں نے بھی حمایت کی ہے۔ متعدد فلمی اداکار کسانوں کے حق میں ٹوئٹ کر رہے ہیں۔ اداکار پرکاش راج نے ایک کارٹون کے ساتھ اپنے ٹوئٹ میں کسانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی توجہ بھٹکنے نہ دیں۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ یہ کسانو ں کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔