بھارت: ستائیس سالہ خاتون ڈاکٹر کا گینگ ریپ اور قتل
30 نومبر 2019جنوبی بھارت میں متعلقہ تھانے کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین نے 'فوری انصاف‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ قبل ازیں پولیس نے جمعے کے روز چار افراد کو گرفتار کرتے ہوئے ان پر ایک ویٹرنری ڈاکٹر کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے اور اسے قتل کرنے کی فرد جرم عائد کر دی تھی۔
مقامی پولیس کمیشنر وی سی سجنار کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پکڑے جانے والے تمام ملزمان کی عمریں بیس برس تک ہیں اور یہ بطور ڈرائیور اور کلینرز کے کام کرتے ہیں۔
پولیس کے مطابق ستائیس سالہ لڑکی گزشتہ بدھ کے روز حیدرآباد کے قریب ایک ٹول پلازہ سے لاپتہ ہو گئی تھی جبکہ اس کی جلی ہوئی لاش اگلی صبح پچیس کلومیٹر دور ایک انڈر پاس روڈ سے ملی تھی۔
پولیس نے ابتدائی تفتیش کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان افراد نے لڑکی کو اس کا موٹر سائیکل ٹھیک کرنے کی آفر کی لیکن بعدازاں وہ اسے ایک ویران جگہ پر لے گئے، جہاں اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان ملزمان نے لڑکی کی لاش کو ایک انڈرپاس میں پھینک دیا اور اسے آگ لگا دی۔
پولیس افسر سجنار کا کہنا تھا، ''ہم اس کیس کو جتنا جلدی ہوا فاسٹ ٹریک کورٹ تک لے جائیں گے۔‘‘
آج ہفتے کے روز بھی اس تھانے کے سامنے مظاہرین جمع ہوئے اور انہوں نے ملزمان کی پھانسی کا مطالبہ کیا۔ اس واقعے کے بعد بھارتی سوشل میڈیا اس بحث سے بھر چکا ہے کہ اس ملک میں خواتین کس قدر محفوظ ہیں؟ ایک صارف اشوک نے لکھا ہے کہ ''بھارت کبھی بھی خواتین کے لیے محفوظ ملک نہیں رہا‘‘۔ اسی طرح کئی دیگر بھارتی صارفین نے اسے ''خواتین کے لیے غیرمحفوظ ترین ملک‘‘ قرار دیا ہے۔
سن 2012 میں دارالحکومت نئی دہلی میں چلتی بس پر ایک لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ حکومت نے اس کے بعد متعدد نئی قوانین متعارف کروائے تھے لیکن وہ ابھی تک بے سود ثابت ہو رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے جاری کردہ آخری اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 میں 33,658 خواتین اور لڑکیوں کو بھارت میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ا ا / ع ح (ڈی پی اے، روئٹرز)