بھارت: سرکاری شیلٹر میں کئی کمسن لڑکیوں کا جنسی استحصال
28 جولائی 2018بھارت کی مشرقی ریاست بہار کے شہر مظفرپور میں قائم محفوظ شیلٹر ہاؤس میں کم از کم چونتیس ایسی لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے، جن کی عمریں سات برس سے اٹھارہ برس کے درمیان ہیں۔ یہ شیلٹر سرکاری نگرانی میں خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ حکام نے بتایا ہے کہ متاثرہ لڑکیوں کو ایک اور مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
پولیس نے جنسی استحصال کی شکار ہونے والی تقریباً تین درجن کمسن اور ٹین ایجر لڑکیوں کی ابتدائی میڈکل رپورٹ حاصل کر لی ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں اور نشاندہی پر کم از کم دس مردوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ان گرفتار ہونے والوں میں ایک غیرسرکاری تنظیم کا سربراہ بھی ہے، جو اس شیلٹر کے لیے امدادی سامان اور رقوم فراہم کرتا تھا۔
ریاستی پولیس کی سینیئر خاتون افسر ہرپریت کور نے مقامی معروف غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔ کور کے مطابق تفتیشی عمل جاری ہے اور گرفتاریوں کا دائرہ وسعت اختیار کر سکتا ہے۔ خاتون پولیس افسر نے یہ بھی بتایا کہ متاثرہ لڑکیوں کے مقام کو تبدیل کر کے اُن کی بہتر انداز میں نگرانی کی جا رہی ہے۔
ہرپریت کورنے بتایا کہ اس شیلٹر میں مقیم چوالیس لڑکیوں کا میڈیکل ٹیسٹ کرایا گیا تھا اور پہلے انتیس کے بارے میں بتایا گیا کہ انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن ہسپتال کی اگلی رپورٹ میں یہ تعداد چونتیس کر دی گئی ہے۔ اس شیلٹر میں ہونے والے اس گھناؤنے افعال کا پردہ ٹاٹا انسٹیٹیوٹ برائے سوشل سائنسز کے ایک سروے میں اٹھایا گیا تھا۔
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ممبئی میں قائم ٹاٹا انسٹیٹیوٹ برائے سوشل سائنسز نے بھارت کے طول و عرض میں قائم خواتین کے شیلٹرز میں دی گئی سہولیات پر ایک سروے مکمل کیا ہے۔ اس سروے کی مرتب کردہ رپورٹ کے تحت پولیس نے کارروائی کی۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مظفرپور کی ایک لڑکی نے سروے ٹیم کو بتایا کہ اُس کی ایک دوست کو ہلاک کر کے شیلٹر ہی کے ایک مقام پر دفن کیا گیا تھا۔
اس بیان کی تصدیق خاتون پولیس افسر ہرپریت کور نے بھی کی ہے۔ اُنہیں بھی ایک متاثرہ لڑکی نے بتایا کہ ایک لڑکی کو جنسی زیادتی کے حوالے سے آواز بلند کرنے پر مارپیٹ کے بعد زندہ ہی زمین میں دفن کر دیا گیا تھا۔ کور کے مطابق ابھی تک کی چھان بین اور زمین کی کھدائی سے جسمانی باقیات دستیاب نہیں ہوئی ہیں۔
مظفر پور کی پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیشی عمل ابھی ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ ریاستی حکومت نے وفاقی تفتیشی ادارے سے تعاون کی درخواست کی ہے۔