1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: شہریت ترمیمی قانون کا تنازعہ ابھارنے کی دانستہ کوشش

جاوید اختر، نئی دہلی
26 اکتوبر 2020

بھارت میں کورونا وائرس کی وجہ سے سرد خانے میں پڑ جانے والے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کو ہندو قوم پرست جماعتوں نے ایک بار پھر سے ابھارنے کی دانستہ کوششیں تیز کردی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3kRtT
Indien | Neu-Dehli | Protest von Muslimischen Frauen
تصویر: DW/M. Javed

بھارت میں ہندو قوم پرست جماعتوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو ابھارنے کی کوششیں ایک بار پھر تیز کردی ہیں۔ پہلے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی صدر اور اب ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے اس حوالے سے بیانات دے کر معاملے کو ایک بار پھر گرم کر دیا ہے۔

بی جے پی کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندووں کے تہوار دسہرا کے موقع پر اپنے خصوصی سالانہ خطاب میں کہا، ”سی اے اے کا مقصد کسی سماج کی مخالفت نہیں ہے۔ اس نئے قانون کی مخالفت کرنے والے مسلم بھائیوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ سی اے اے کا استعمال کرکے موقع پرست افراد مخالفت کے ذریعے منظم تشدد پھیلارہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ اس قانون کا مقصد مسلم آبادی کو قابو میں کرنا ہے۔" 

سی اے اے نافذ کرنے کا مطالبہ

دسہرے کے موقع آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور میں کی جانے والی تقریر کو ہندو قوم پرست جماعت کے رہنما کی جانب سے پالیسی بیان سمجھا جاتا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اس مربی تنظیم کی درجنوں ذیلی تنظیمیں اسی کے مطابق اپنا اپنا لائحہ عمل طے کرتی ہیں۔

ایک ہفتے قبل بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈّا نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھام ''سی اے اے کا نفاذ یقینی ہے۔ ابھی ضابطے تیار کیے جا رہے ہیں۔ کورونا کی وجہ سے تھوڑی رکاوٹ آئی ہے۔ اس قانون کے ضابطے تیار ہو رہے ہیں اور بہت جلد ہم اسے مکمل کرلیں گے اور اسے جلد ہی نافذ کردیا جائے گا۔"

بی جے پی کے دیگر رہنما بھی وقتاً فوقتاً سی اے اے کو جلد از جلد نافذ کرنے  مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں اس متنازعہ قانون کی بھارتی پارلیمان سے منظوری کے بعد اس کے خلاف ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

اس سلسلے میں دہلی کے شاہین باغ علاقے میں خواتین نے 100 سے زیادہ دنوں تک مسلسل مظاہرے بھی کیے، جسے کورونا کے سبب لاک ڈاون نافذ کر دیے جانے کے بعد ملتوی کردیا گیا تھا۔

مظاہروں  کو منظم کرنے والوں میں شامل بلقیس بانو کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد مظاہروں کا سلسلہ دوبارہ بحال کردیا جائے گا۔ خیال رہے کہ امریکی جریدے 'ٹائم‘ نے بلقیس بانو کو 2020 ء میں دنیا کی 100 با اثر شخصیات میں شامل کیا ہے۔

’ہمیں بچہ نہ سمجھیں‘

متعدد جماعتوں نے موہن بھاگوت کے بیان پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ آرایس ایس، جسے سنگھ کے نام سے بھی جانا جاتاہے، کے سربراہ کے بیان پر سخت ردعمل کرتے ہوئے رکن پارلیمان اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے، ”ہم کوئی بچے نہیں ہیں کہ ہمیں گمراہ کردیا جائے۔"

انہوں  نے آر ایس ایس سربراہ اور حکومت کو متنبہ کیا ہے، ”یہ یاد رکھیں کہ ہم اس وقت تک مخالفت کرتے رہیں گے، جب تک ایسا ایک بھی قانون رہے گا، جو ہمیں ہماری شہریت کو ثابت کرنے کے لیے کہے گا۔"

راجستھان کے وزیر اعلی اور کانگریسی رہنما اشوک گہلوت نے بھی بی جے پی صدر کے بیان کو 'انتہائی افسوس ناک‘ قرار دیا۔

عمران خان کا بیان

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی سی اے اے کا معاملہ ایک بار پھر اٹھا دیا ہے۔ فیس بک کے سی ای او مارک سوکر برگ کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ ریاستوں میں مسلمانوں کو لباس سے لے کر عبادت تک کے ان کے جمہوری ذاتی انتخاب اور ان کے شہریت کے حقوق دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔

عمران خان نے مزد لکھا، ”بھارت میں مسلمان مخالف قوانین اور اقدامات مثلاً سی اے اے اور این آر سی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگز اور مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرانا اسلاموفوبیا کے مکروہ رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔"

دنیا بھر میں مخالفت

سی اے اے کی منظوری کے بعد اس کی دنیا بھر میں مخالفت ہوئی، جس کی وجہ سے مودی حکومت نے گو کہ اسے فوری طور پر نافذ کرنے کا اعلان ملتوی کردیا تاہم حکمران جماعت کے اعلیٰ رہنماوں کے بیانات سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ حکومت اسے ہر حال میں نافذ کرنا چاہتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے اس قانون پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی اے اے کی نوعیت بنیادی طور پر جانبدارانہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اس قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر پولیس کی پرتشدد کارروائیوں پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا۔

’مودی کی حکومت ملک کو ایک ہندو ریاست بنانے کی کوشش میں‘

اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن نے ایک غیر معمولی اقدام کے تحت گزشتہ مارچ بھارتی سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے اپیل کی تھی کہ اسے بھی سی اے اے کے خلاف دائر عرضیوں میں ایک فریق کے طور پر شامل کیا جائے۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ 'سی اے اے سے انسانی حقوق کے معاملات بھی وابستہ ہیں‘۔

’یہ داخلی معاملہ ہے‘

قوم پرست وزہیر اعظم نریندر مودی حکومت اور حکمران جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے اور کسی بھی ملک یا غیر ملکی ادارے کو اس میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

سی اے اے کے تحت مذہبی عقائد کی بنیاد پر زیادتی کا شکار ہونے والے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے چھ مذہبی اقلیتوں کو، جو 31 دسمبر 2014 ء تک بھارت میں داخل ہو چکے تھے اور بھارت میں پچھلے چھ برسوں سے مقیم ہیں، انہیں شہریت دینے کا  کہا گیا ہے۔ ان مذہبی اقلیتوں میں ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی، بودھ اور جینی شامل ہیں۔ تاہم اس میں مسلمانوں اور یہودیوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں