1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: قرض کے لیے راشن کارڈ گروی رکھنے پر مجبور

جاوید اختر، نئی دہلی
20 اپریل 2020

بھارت میں مالی طور پر پریشان حال قبائلی اپنے خاندان کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چند روپے کے خاطر اپنا سب سے قیمتی اثاثہ ’راشن کارڈ‘ گروی رکھنے پر مجبور ہیں۔

https://p.dw.com/p/3bA6h
Indien Westbengalen Wahl
تصویر: Getty Images/AFP/D. Sarkar

یہ افسوس اور حیرت ناک بات ریاست مغربی بنگال کے پرولیا ضلع کے گاوں سے سامنے آئی ہے جہاں قبائلی اناج اورعلاج کی خاطر پیسے کے لیے اپنے راشن کارڈ ساہوکاروں اور سود خوروں کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں۔

یہ معا ملہ اس وقت سامنے آیا جب مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے لاک ڈاون کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا خط افلاس سے نیچے رہنے والے افراد کوعوامی نظام تقسیم کے ذریعہ چھ ماہ تک ہر ماہ پانچ کلوچاول اورپانچ کلو دال دینے کا اعلان کیا۔

چونکہ غریب قبائلیوں کا راشن کارڈ ساہوں کاروں کے پاس رہتا تھا اس لیے ساہو کار راشن کارڈ پر ملنے والا سستا اناج خود اٹھا لیتے تھے اور اسے بازار میں مہنگے داموں میں فروخت کردیتے تھے۔ لاک ڈاون کے بعد جب حکومت نے غریبوں کو مفت میں راشن دینے کا اعلان کیا تو پتہ چلا کہ ان لوگوں کے پاس تو راشن کارڈ ہی نہیں ہیں۔ ممتا بنرجی اس بے ضابطگی سے خاصی ناراض ہوئیں اور انہوں نے فوڈ سکریٹری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پرولیا ضلع کے جھالدا بلاک کے سروج ماتو گاوں میں تقریباً ڈیڑھ سو خاندان رہتے ہیں۔ ان سب کے راشن کارڈ ساہو کار کے پاس گروی رکھے تھے۔ گاوں کے ایک بزرگ نے بتایا، ”میں نے دس سال قبل بیوی کے علاج کے لیے ایک ساہوکا ر سے دس ہزار روپے قرض لیے تھے اس کے بدلے میں راشن کارڈ گروی رکھنا پڑا تھا۔“ اسی گاوں کی 70سالہ رادھیکا کا کہنا تھاکہ چار برس قبل سات ہزار روپے کے عوض میں انہوں نے اپنا راشن کارڈ گروی رکھ دیا تھا۔

ایک مقامی سرکاری افسر کا کہنا ہے کہ ”اس معاملے کی تفتیش ہورہی ہے۔ فی الحال ساہوکاروں سے راشن کارڈ لے کر متعلقہ افراد کو سونپ دیا گیا ہے لیکن فریقین میں معاہدہ ہوجانے کی وجہ سے گاوں والوں نے ساہوکاروں کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی ہے۔“

یہ کہانی پرولیا کے صرف ایک گاو ں تک محدود نہیں ہے۔ ایسے درجنوں گاوں ہیں جہاں یہی صورت حال ہے۔ لوگ ضرورت کے تحت ساہو کاروں سے قرض لیتے ہیں اور ساہوکار اس کے بدلے میں ان کا راشن کارڈ گروی رکھ لیتے ہیں۔ اس کارڈ پر بہت معمولی قیمت میں ملنے والا اناج خرید کر مہنگے داموں میں بازار میں بیچ دیتے ہیں۔

ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ گاوں کے ان قبائلیوں کے پاس اثاثے کے نام پر راشن کارڈ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس لیے بیماری کا علاج کرانا ہو یا بیٹی کی شادی کرنی ہو، قرض کے لیے یہی ان کا سرمایہ ہے۔ اسے گروی رکھ کر قرض لینا ان علاقوں میں عام بات ہے۔ ماہر سماجیات پروفیسر سدیپ چٹرجی کہتے ہیں ”مڈل کلاس کے خاندان جس طرح سونا گروی رکھ کر قرض لیتے ہیں اسی طرح اس علاقے کے لوگ راشن کارڈ گروی میں رکھتے ہیں۔ کئی معاملات میں تو قرض ادا کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے نسل در نسل یہ کارڈ ساہوکار کے پاس ہی رہتا ہے۔“  قانونی طور پر راشن کارڈ کسی دوسرے کو منتقل نہیں کیا جاسکتا اس کے باوجود یہ غیر قانونی کام برسوں سے چل رہا تھا۔ ضلع کے دیگر تمام گاوں میں بھی انکوائری کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔

Indien Neu Delhi Protest Bauern aus Tamilnadu
تصویر: Getty Images/AFP/P. Singh

پرولیا کے ضلع مجسٹریٹ راہول مجمدار کہتے ہیں ”لاک ڈاون نہیں ہوتا تو یہ بات سامنے ہی نہیں آتی۔“  لیکن پرولیا ڈسٹرکٹ کاونسل کے چیئرمین سورج بنرجی کا کہنا ہے کہ ”راشن کارڈ گروی رکھنے والے اور ساہوکار دونوں ہی یکساں طور پر قصور وار ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ انتظامیہ کارروائی کرے۔ لیکن پانی میں رہ کر مگر مچھ سے دشمنی کرنا شاید کوئی نہیں چاہتا۔ اس لیے گاوں کے لوگوں نے ساہو کار کے خلاف اب تک تحریری شکایت نہیں درج کرائی ہے۔“

دوسری طرف ساہوکار حکومت کے اس اقدام سے ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گاوں کے لوگوں نے جو قرض لیے تھے اس کے بدلے میں راشن کارڈ گروی کے طور پر رکھے تھے۔ پولیس نے کارڈ تو واپس لے لیا لیکن ہمارے پیسوں کا کیا ہوگا۔ ہمارے پیسے کون واپس دلائے گا؟

مغربی بنگال میں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنمانے اس واقعے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا”میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ راشن کارڈ گروی رکھنے کا معاملہ دیکھا۔ حکومت ترقی کے دعوے کرتی ہے لیکن حقیقی صورت حال یکسر مختلف ہے۔“

جاوید اختر/پربھاکر، نئی دہلی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں