1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: لاوارث دلہنیں انصاف کے لیے لڑتی ہوئیں

2 اپریل 2023

بدسلوکی، مظالم اور شوہر کا چھوڑ جانا، بھارتی ریاست پنجاب میں کئی خواتین ایسی ہیں جن کی یہی کہانی ہے۔ لیکن ان کے لیے انصاف کے حصول کی راہ بھی آسان نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/4Pbk8
Indien Kultur Religion l Traditionelle Hochzeit, Massenhochzeit in Neu Delhi
تصویر: Altaf Qadri/AP/picture alliance

بھارت کی ’این آر آئی دلہنیں‘

نیلم رانی کی گورو کمار سے شادی کو صرف 45 دن ہوئے تھے کہ وہ ان کے بغیر جرمنی چلا گیا اور اس کی تمام نقدی اور زیورات بھی اپنے ساتھ لے گیا۔

شوہر کے چھوڑ جانے کے آٹھ سال بعد، نیلم اب پنجاب کے شہر گورداسپور میں اپنے بوڑھے والد اور چھوٹی بہن کے ساتھ رہتی ہیں۔

نیلم کے شوہر نے انہیں اپنے ساتھ جرمنی لے جانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شادی کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی زندگی اچانک پلٹ کر رہ گئی۔

بھارتی خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے شوہر ان پر جسمانی تشدد کرتا تھا اور اس بدسلوکی کا جواز ’مناسب جہیز‘ نہ ملنا بتاتا تھا۔

ڈی ڈبلیو نے نیلم کے شوہر سے بھی رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا
ڈی ڈبلیو نے نیلم کے شوہر سے بھی رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملاتصویر: Adil Bhat/DW

انہوں نے بتایا کہ سسرال والوں کے ہاتھوں ’تشدد‘ کی وجہ سے ان کا اسقاط حمل ہوا۔

انصاف کا حصول

کئی برسوں تک اپنی مشکل شادی اور اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر غور کرنے کے بعد نیلم نے اپنے شوہر اور اس کے اہل خانہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا۔

اپنے والد کی مدد سے وہ پولیس اسٹیشنوں اور عدالتوں کے چکر لگا کر انصاف حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن انہیں اب تک کامیابی نہیں ملی۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے نیلم نے بتایا، ’’مجھے اب تک انصاف نہیں ملا۔ روزانہ کے مظالم اور تشدد کی وجہ سے میرا جسم کمزور ہے۔ میرا واحد مقصد اپنے مجرموں کو عدالت سے سزا دلوانا ہے اور اپنی گزشتہ زندگی دوبارہ حاصل کرنا ہے۔‘‘

موقف جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے نیلم کے شوہر سے بھی رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

لاوارث دلہنیں

نیلم کی کہانی ایسی واحد اور ایسی بہت سی دیگر کہانیوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ پنجاب کے دیگر قصبوں اور شہروں میں ایسی کئی خواتین ہیں جن کے پاس چھوڑ دیے جانے، بدسلوکی اور ظلم و ستم کی ایسی ہی کہانیاں ہیں۔

سنتوش کور کی، جو لدھیانہ شہر کے ایک تنگ گھر میں رہتی ہیں، شادی کو صرف 15 دن ہوئے تھے جب ان کے شوہر امریکہ چلے گئے تھے۔

ان کے والدین نے شادی کی تقریب اور جہیز پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنا گھر گروی رکھ دیا تھا۔ اب وہ قرض چکانے کے لیے تگ و دو اور جدوجہد کر رہی ہیں اور وہ دل کی بیماری میں بھی مبتلا ہیں۔

Indien | Ehen
تصویر: Adil Bhat/DW

سنتوش کور کہتی ہیں، ’’میرا پورا خاندان ڈپریشن میں چلا گیا۔ لوگ یہ پوچھ کر میرا مذاق اڑاتے تھے کہ آپ کے شوہر کب واپس آ رہے ہیں اور آپ ان کے ساتھ کب جا رہی ہیں۔‘‘

خاندان کا دباؤ

بھارت میں 40 ہزار سے زائد خواتین کو کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں آباد بیرون ملک مقیم بھارتیوں (این آر آئیز) سے شادی کرانے کے حوالے سے دھوکہ دیا جا چکا ہے۔

بھارتی ریاست پنجاب ملک میں ’لاوارث دلہنوں‘ کا مرکز بن چکی ہے۔ ایسی خواتین کو معاشرے کی جانب سے بھی بدنام کیا جاتا ہے۔

ہر سال ہزاروں بھارتی مرد بہتر زندگی کی تلاش میں بیرون ملک جاتے ہیں، لیکن انہیں اپنے اہل خانہ کی طرف سے گھر لوٹنے اور شادی کرنے کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بھارت میں بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی بیرون ملک مقیم بھارتی سے کرانے کی کوشش کرتے ہیں کیوں کہ انہیں امید ہوتی ہے کہ وہ بیرون ملک بہتر زندگی گزار پائیں گی۔

لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا ہے۔ کئی واقعات میں بیرون ملک آباد ان کے شوہر انہیں بھارت ہی میں چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔

لاوارث دلہنوں کی مدد

ستویندر کور ’اب نہیں سوشل ویلفیئر‘ این جی او چلاتی ہیں۔ وہ اس ادارے کے ذریعے لاوارث دلہنوں کو قانونی اور مالی مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان کا ایسے مسائل سے نمٹنے کا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ ستویندر کے اپنے شوہر نے انہیں سن 2015 میں چھوڑ دیا تھا، جس کے بعد ان کے سسرال والوں نے بھی انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔

وہ اور ان کی ٹیم اب 400 سے زائد لاوارث دلہنوں کی مدد کرتی ہے تاکہ وہ اپنی کہانیوں کو دستاویزی شکل دے سکیں اور اپنے شوہروں کے پاسپورٹ منسوخ کروانے سمیت مختلف طریقوں سے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکیں۔

ستویندر کے مطابق، ’’ہماری این جی او نے ایسے معاملات کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا ہے اور ہمیں ہر روز مختلف ریاستوں سے فون آتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’حکومت ان عورتوں کی مدد نہیں کر رہی۔ اگر وہ مدد کرتی، تو آپ ان خواتین کو اپنے بزرگ والدین کے ہمراہ ہر روز عدالتوں اور تھانوں کے چکر لگاتا نہ دیکھتے۔‘‘

مشکل وقت

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے اب این آر آئیز کا ریاستی کمیشن قائم کیا ہے تاکہ خواتین کو چھوڑ جانے والے اپنے شوہروں کا سراغ لگانے اور ان کے پاسپورٹ منسوخ کرنے میں مدد ملے۔

اس کمیشن کے پہلے سربراہ راکیش گرگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انصاف کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔

دوسرے ممالک کے ساتھ حوالگی کے معاہدوں کی کمی کی وجہ سے مفرور افراد کا پیچھا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

گرگ بیرون ملک مقیم بھارتی شوہروں کو جوابدہ بنانے کے لیے سخت قوانین منظور کیے جانے پر زور دیتے ہیں۔ تاہم ان کی کوششیں اس لیے بھی رنگ نہیں لا پائیں کیوں کہ کمیشن کا گزشتہ دو برسوں سے کوئی سربراہ ہی نہیں ہے۔

ستویندر کور لاوارث دلہنوں کو قانونی اور مالی مدد فراہم کرتی ہیں
ستویندر کور لاوارث دلہنوں کو قانونی اور مالی مدد فراہم کرتی ہیںتصویر: Adil Bhat/DW

انہوں نے بتایا، ’’بھارتی حکومت اور ریاستی حکومتیں ان خدشات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں لیکن خامی تحقیقاتی عمل میں ہے جو زیادہ تر مقدموں میں بہت ناقص ہے۔ ہمیں اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔‘‘

انصاف کے حصول میں تاخیر اور ناکامیوں کی وجہ سے مایوسی اور بے بسی ان پریشان حال خواتین کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔

اپنی شادیوں کے اچانک اور غیر متوقع خاتمے سے صدمے سے دوچار نیلم اور سنتوش جیسی خواتین قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ان کی تمام تر امیدیں حکومت سے وابستہ ہیں لیکن حکومت ان کی حالت زار کے بارے میں پرواہ کرتی دکھائی نہیں دیتی۔

عادل بھٹ (ش ح/ ا ا)