بھارت، متعدد مذبح خانے بند، گوشت اور چمڑے کی صنعت متاثر
14 جون 2017بھارت کے شہر آگرہ کی عقبی گلیوں میں جہاں صدیوں سے جوتے بنانے کا کام کیا جاتا تھا، اب چھوٹے تاجر اپنے ہاں کام کرنے والوں کو ملازمتوں سے فارغ کر رہے ہیں۔ جوتا سازی کے یہ پیشہ ور افراد انڈیا میں مسلم اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
تین سال قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے بر سراقتدار آنے کے بعد سے دائیں بازو کے انتہا پسند خیالات رکھنے والے ہندؤں کی جانب سے گائے کو ذبح کرنے کے معاملے پر زیادہ سختی دیکھنے میں آئی ہے۔
ہندو اکثریت کے ملک بھارت میں گائے کو مذہبی طور پر مقدس سمجھا جاتا ہے اور ملک کی متعدد ریاستوں میں اس جانور کو ذبح کرنے پر پابندی عائد ہے، جب کہ کچھ ریاستوں میں تو یہ باقاعدہ جرم ہے، جس کی سزا عمر قید ہے۔
انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں رواں برس مارچ میں گائے کے غیر لائسنس شدہ مذبح خانوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جس سے مسلمانوں کی اجارہ داری والے اس کاروبار کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ گزشتہ ماہ مودی حکومت نے گائے کے ساتھ ساتھ بیل کے ذبیحے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ بیل سے گوشت اور چمڑا حاصل کیا جاتا ہے۔
اس پابندی سے گوشت کے کاروبار سے منسلک مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
بھارت میں قصائیوں کی مسلم کمیونٹی کے نمائندے عبد الفہیم قریشی کا کہنا ہے کہ اتر پردیش میں گوشت کی بعض مارکیٹوں میں جہاں گزشتہ برس تک ایک ہزار مویشیوں کا کاروبار ہوتا تھا، اس سال کم ہو کر صرف سو مویشی تک رہ گیا ہے۔
پیداوار میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی دو غریب کمیونیٹیز کے لیے جن میں مسلمان اور نچلی ذات کے ہندو شامل ہیں، ملازمتیں نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گی۔
اتر پردیش میں چمڑے کے چند بڑے صنعتکاروں نے اتر پردیش حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف لائسنس یافتہ مذبح خانوں کے چلنے سے اس صنعت کی ساکھ بہتر ہو گی۔
تاہم بھارت میں چمڑے اور گوشت کی صنعت سے لاکھوں افراد وابستہ ہیں اور ان دونوں صنعتوں سے ملک کو سالانہ سولہ بلین ڈالر سے زیادہ کی آمدنی ہوتی ہے۔
آگرہ میں جوتا سازی سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ اب اس شعبے میں وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان لوگوں کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے حملوں کا خوف ہے۔
آگرہ کے چھیاسٹھ سالہ جوتا ساز محمد مقیم نے روئٹرز کو بتایا،’’یہ ہمیں کمزور کرنا اور ہماری روٹی چھین لینا چاہتے ہیں۔‘‘ مقیم کے ہاں ملازم افراد اب اصلی چمڑے کے بجائے مصنوعی سامان سے جوتے تیار کرتے ہیں۔