بھارت: متنازعہ لو جہاد قانون، ایک مسلم نوجوان جیل میں
25 دسمبر 2020بھارتی ریاست اترپردیش میں پولیس نے متنازعہ لو جہاد قانون کے تحت ایک نو عمر مسلم لڑکے کو جیل میں ڈال دیا ہے۔ اس کی غیر مسلم دوست نے حالانکہ تبدیلی مذہب کے الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔
اتر پردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں انسداد تبدیلی مذہب کے متنازعہ قانون جسے، لو جہاد قانون بھی کہا جاتا ہے،کے تحت ایک نو عمر مسلم لڑکے کو گزشتہ دس دنوں سے جیل میں رکھنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
گزشتہ 27 نومبر کو نیا قانون نافذ العمل ہونے کے بعد اترپردیش میں بین المذاہب شادیوں کے خلاف کارروائیوں اور مسلم مردوں کو گرفتار کرنے کے واقعات میں اضافے کی بھی اطلاعات ہیں۔ ذرائع کے مطابق اب تک تقریباً ایک درجن مقدمات درج اور کئی درجن افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
آزادی سے محروم کرنے کی کوشش
اترپردیش میں ہونے والی اس تازہ ترین پیش رفت کے حوالے سے ماہر سماجیات اور بھارتی تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''بھارت کے آئین میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیے گئے ہیں لیکن زمین پر اب تک اس کا نفاذ نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی اس کے لیے کبھی کوشش کی گئی ہے بلکہ اب اسے ختم کرنے کی پوری منصوبہ بندی کی جاری ہے۔‘‘
ڈاکٹر منظور عالم کا مزید کہنا تھا کہ عوامی آزادی اور انسانی حقوق کو سلب کرنے کی پوری سازش رچائی جا رہی ہے،''اقتدار میں بیٹھے لوگ بھارت کے عوام کو آئین میں دی گئی آزادی سے محروم کرنا چاہتے ہیں اور ان کے نشانے پر سب سے زیادہ مسلمان ہیں‘‘۔
’یہ سیاہ قانون ہے‘
سینیئر وکیل اور سینٹر فار لاء اینڈ پالیسی ریسرچ کی ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر جیئنا کوٹھاری کا کہنا تھا کہ یہ قانون شہریوں کو اپنی پسند کی شادی کرنے، خود مختاری اور پرائیویسی کے حوالے سے بھارتی آئین کی صریح خلاف ورزی ہے،''یہ ایک سیاہ قانون ہے اور مذہب کی بنیاد پر مساوات کے حق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘‘
کوٹھاری کہتی ہیں کہ بھارت میں ایسے کوئی ٹھوس اعداد و شمار دستیاب نہیں، جن سے یہ پتہ چلتا ہو کہ تبدیلی مذہب کے بعد شادی سے کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچا ہے،''یہ قانون دراصل تحفظ کے نام پر عورتوں اور لڑکیوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش ہے۔‘‘
تازہ معاملہ کیا ہے؟
اترپردیش کے بجنور ضلع میں گزشتہ 14 دسمبر کو ایک 16سالہ دلت ہندو لڑکی اور اس کا 17سالہ مسلم دوست اپنے ایک مشترکہ دوست کی سالگرہ پارٹی سے واپس لوٹ رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے انہیں پہلے لاٹھیوں سے پیٹا اور جب یہ پتہ چلا کہ دونوں مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں تو پکڑ کر مقامی تھانے میں لے گئے، جس کے بعد سے مسلم لڑکا ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہے۔
پولیس کا دعوی ہے کہ لڑکے کو لڑکی کے والد کی اس مبینہ شکایت پر گرفتار کیا گیا ہے،”ملزم، ان کی بیٹی کو بہلا پھسلا کر بھگا کر لے گیا تھا اور وہ اس کا مذہب تبدیل کرکے شادی کرنا چاہتا تھا۔"
لڑکی کے والد نے تاہم پولیس کے دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے خود ایک بیان لکھا اور اس پر دستخط کروا لیے،''انہوں نے میری بیٹی کی ویڈیو بنالی اور جھوٹا دعوی کر دیا کہ یہ لو جہاد کا کیس ہے، میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والا تھا لیکن مجھے بدنام کرنے کے لیے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا۔" انہوں نے سوال کیا کہ کیا ایک لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کے ساتھ گھومنا غیر قانونی ہے؟
متاثرہ لڑکی نے بھی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”میں نے یہ بات مجسٹریٹ سے بھی کہی تھی اور بار بار کہوں گی کہ میرے اپنے دوست کے ساتھ گھومنے پر لوگوں کو کیوں اعتراض ہے۔انہوں نے ویڈیو بنالی اور اب اسے لو جہاد کا نام دے رہے ہیں۔ میں اپنی مرضی سے گھومنے گئی تھی۔"
دوسری طرف پولیس کا دعوی ہے کہ لڑکی سے پوچھ گچھ اور اس کے والد کی شکایت کے بعد ہی لڑکے کے خلاف متعدد دفعات کے تحت کیس درج کیے گئے ہیں۔اور جب تک اس کے گھر والے یہ ثابت نا کر دیں کہ لڑکے کی عمر 18برس سے کم ہے اس وقت تک اسے عدالتی تحویل میں ہی رہنا پڑے گا۔
لڑکے کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کا ایک سال قبل انتقال ہو گیا تھا اور ان کا بیٹا ایک دوسرے شہر سے، جہاں وہ ویلڈر کا کام سیکھ رہا تھا، حال ہی میں اپنے گھر آیا تھا۔
’عدالت میں نہیں ٹک پائے گا‘
بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستوں مدھیہ پردیش، کرناٹک، ہریانہ اور آسام نے بھی اتر پردیش کی طرح ہی قانون نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔تاہم ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس قانون میں آئینی طور پر کئی خامیاں ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج مدن بی لوکر کا کہنا ہے،”یہ قانون عدالت میں ٹِک نہیں سکے گا، کیونکہ اس میں قانونی اور آئینی طور پر کئی خامیاں ہیں۔‘‘
اس سے قبل الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بھی ایک معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر لڑکا اور لڑکی بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر رہے ہیں، تو یہ ان کا آئینی حق ہے۔