بھارت: مسلمان آبادی میں نو عمروں کی تعداد سب سے زیادہ
14 جنوری 2016حکومت کی طرف سے جاری کردہ سال2011ء کی مردم شماری کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں اور نوعمروں یعنی صفر سے انیس برس کی عمر کے بھارتی شہریوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔ اس زمرے میں مسلمانوں کی شرح سینتالیس فیصد ہے جب کہ ہندوؤں کے ہاں یہ شرح چالیس فیصد، عیسائیوں اور بودھوں کے ہاں سینتیس فیصد، سکھوں کے ہاں پینتیس فیصد اور جینیوں کے ہاں انتیس فیصد جب کہ قومی اوسط اکتالیس فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال2001 کے مقابلے میں 2011 میں نوجوانوں کی آبادی میں کمی آئی۔ ابھی نوجوان آبادی کا اکتالیس فیصد ہیں جب کہ 2001ء میں ملک کی کل آبادی کا پینتالیس فیصداس زمرے میں آتا تھا۔ تب مسلمان باون فیصد، ہندو چوالیس فیصد اور جینی پینتیس فیصد تھے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ فی جوڑا اولاد کی شرح میں بھی کمی آئی ہے یعنی ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح کم ہوئی ہے۔
پندرہ برس سے کم عمر کے زمرے میں بھی مسلم بچوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی چھتیس فیصد ہے تاہم یہ گذشتہ مردم شماری کے مقابلے میں پانچ فیصد کم ہے۔ 2001ء میں مسلمان بچوں کی تعداد اکتالیس فیصد تھی۔ اس زمرے میں ہندوؤں کی تعداد تیس فیصد ہے جب کہ گذشتہ مردم شماری میں ان کی تعداد پینتیس فیصد تھی۔
بیس تا انسٹھ برس کی عمر کے گروپ میں بھی، جسے ورکنگ ایج گروپ کہا جاتا ہے، مسلمانوں کی تعداد سب سے کم یعنی صرف چھیالیس فیصد ہے جب کہ قومی اوسط پچاس فیصد ہے۔ اس زمرے میں جینیوں کی تعداد سب زیادہ یعنی اٹھاون فیصد ہے۔ سکھ اور بودھ 54 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر، مسیحی 53 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر اور ہندو 51 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت میں ہر دس سال کے وقفے سے مردم شماری کرائی جاتی ہے اور عمومی رپورٹ کی اشاعت کے بعد مختلف پہلوؤں سے اعداد و شمار کی اشاعت اور اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔2011ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی 1.21بلین تھی، جس میں ہندوؤں کی شرح اسّی فیصد اور مسلمانوں کی تعداد چود ہ فیصد تھی۔
رپورٹ کے مطابق ساٹھ برس سے زیادہ عمر کے گروپ میں سب سے زیادہ تعداد سکھوں اور جینیوں کی ہے، جو بارہ بارہ فیصد ہے۔ اس گروپ میں مسیحیوں کی شرح دس فیصد، ہندوؤں اور بودھوں کی شرح نو نو فیصد ہے اور یہی قومی اوسط بھی ہے۔
دوسری طرف ساٹھ برس سے زیادہ عمر کے مسلمانوں کی تعداد صرف چھ فیصد ہے، جو قومی اوسط سے کافی کم ہے اور جس کا مطلب ہے کہ چورانوے فیصد بھارتی مسلمان ساٹھ برس کی عمر کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ماہرین سماجیات کہتے ہیں کہ ساٹھ برس کی عمر کے افراد کی تعداد کا اوسط اس بات کا اشارہ ہے کہ اس مذہبی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افرادکی اقتصادی حالت کیسی ہے اور صحت اور خدمات کے شعبوں تک ان کی رسائی کتنی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی اقتصادی، تعلیمی اور سماجی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے کانگریس کی قیادت والی سابقہ متحدہ ترقی پسند اتحادحکومت نے سابق جج جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی تھی، جس نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں کہا تھا کہ مسلمانوں کی حالت ملک کے سب سے پسماندہ سمجھے جانے والے طبقے دلت سے بھی زیادہ خراب ہے۔
انہوں نے مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے متعدد سفارشات بھی کی تھیں۔ حکومت نے بعد میں ان سفارشات پر عمل درآمد کی صورت حال کا پتہ چلانے کے لیے ماہر سماجیات امیتابھ کنڈو کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی۔ امیتابھ کنڈو نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ گوکہ موجودہ (مودی) حکومت سچر رپورٹ کی سفارشات کو تسلیم کرتی ہے اور اسے نافذ کرنا چاہتی ہے لیکن حکومت کے اندر اور باہر مختلف گروپوں اور این ڈی اے کی حمایت کرنے والے متعدد سوشل گروپوں کے دباؤ کی وجہ سے وہ اسے نافذ کرنے سے ہچکچا رہی ہے۔