بھارت: مسیحیوں پر حملوں میں اضافہ
23 اپریل 2020مسیحیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم یونائٹیڈ کرسچین فورم ان انڈیا (یو سی ایف) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں برس کے ابتدائی تین مہینوں میں مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کی تعداد اور شدت دونوں لحاظ سے کافی اضافہ ہوا ہے۔
یو سی ایف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوری اور مارچ 2020 کے درمیان مسیحیوں پر تشدد کے 78 واقعات پیش آئے جبکہ صرف مارچ میں ہی ایسے 27 پرتشدد واقعات کی رپورٹیں درج کرائی گئیں۔
یوسی ایف کا کہنا ہے کہ یہ حملے اترپردیش، چھتیس گڑھ، تمل ناڈو، اوڈیشا، کرناٹک، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، تلنگانہ اور گوا میں ہوئے۔ اور بیشتر معاملات میں حملہ آوروں نے چرچ میں عبادت کے دوران مسیجیوں کو نشانہ بنایا۔
رپورٹ میں متعدد حملوں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ 12 مارچ کو حملہ آوروں نے ایک پادری اور اس کے چھ سالہ بیٹے پر اس لیے حملہ کردیا کیوں کہ وہ ایک گھر میں تعمیر گرجا گھر کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ حملہ آوروں نے پادری کو اپنی آٹھ سالہ بیٹی کے مبینہ طور پر کپڑے اتارنے پر مجبور کیا اور ایسا نہ کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی۔
15مارچ کو اترپردیش کے کنڈا تھانہ میں 300 افراد پر مشتمل ایک ہجوم نے چرچ میں عبادت کے دوران حملہ کردیا، جبکہ پولیس نے بھی چرچ کے پادری کو مارا پیٹا اور اس پر چرچ کو مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کا جھوٹا الزام عائد کردیا۔
فروری میں جنوبی بھارت میں تمل ناڈو ریاست کے تھوتھوکوڈی ضلع کے ستھانکولم قصبہ میں پولیس نے نو مسیحیوں کو ”لوگوں کو جبراً مذہب تبدیل کرانے“ کا الزام لگاتے ہوئے بری طرح مارا پیٹا۔ اسی صوبہ میں اپریل میں متعدد مسیحیوں کو اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ غریبوں کو کھانا اور دیگر امدادی اشیاء تقسیم کررہے تھے۔ پولیس نے ان مسیحیوں پر لوگوں کا مذہب تبدیل کرانے کا الزام لگایا۔ اپریل میں ہی مشرقی صوبہ اوڈیشا میں ایک گھر میں عبادت میں مصروف مسیحیوں پر حملہ کرکے انہیں بری طرح پیٹا گیا۔
بھارت میں مسیحی مخالف سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والی تنظیم پرزیکیوشن ریلیف کے مطابق بھارت میں 2016 سے 2019 کے درمیان مسیحیوں کے خلاف جرائم کی تعداد میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے بیشترواقعات بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست اترپردیش میں ہوئے ہیں۔
بھارت میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے متعدد ریاستوں نے تبدیلی مذہب کے خلاف سخت قوانین منظور کیے ہیں۔ ان قوانین کا مقصد کسی شخص کو زبردستی، دھوکہ دے کر یا لالچ دے کر یا دھمکا کر مذہب تبدیل کرنے یا کرانے کی کوشش سے روکنا ہے۔ تاہم پرزیکیوشن ریلیف جیسی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی آڑمیں انتہاپسند عناصر کلیساوں میں عبادت میں رخنہ ڈالتے اور مسیحیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔
امریکا سے سرگرم بین الاقوامی تنظیم ’اوپن ڈورز‘ کے مطابق دنیا میں مسیحیوں کے لیے مشکل ترین ممالک کی فہرست میں بھارت دسویں نمبر پر ہے۔ اوپن ڈورز کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسیحیوں کوشدت پسندوں کے ہاتھوں ’انتہائی خوفناک‘ صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان پر ہر سال ہزاروں کی تعداد میں حملے ہوتے ہیں۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ 2014 میں بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسیحیوں پر حملوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ برس ان پر ہر روز اوسطاً ایک حملہ ہوا۔
یو سی ایف کا کہنا ہے کہ پولیس سیاسی دباو کی وجہ سے مسیحیو ں پر ہونے والے حملوں کی رپورٹیں درج کرنے سے اکثر انکار کردیتی ہے جب کہ بعض اوقات تو خود متاثرین کو ہی ملزم بنادیا جاتا ہے۔