1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: فیس بک کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیشی

جاوید اختر، نئی دہلی
2 ستمبر 2020

بھارت میں فیس بک کے حوالے سے جاری سیاسی رسہ کشی کے درمیان یہ امریکی سوشل میڈیا کمپنی اپنے او پر عائد الزامات کے سلسلے میں صفائی پیش کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے حاضر ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3htdY
Facebook Datenschutz (Symbolbild)
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel

اپوزیشن کانگریس کے بعد اب حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی فیس بک پر سیاسی نظریات کی بنیاد پر تفریق کرنے کا الزام لگایا ہے۔

فیس بک کے نمائندے بھارتی پارلیمان کی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے حاضر ہوں گے اور سوشل میڈیا قوانین کے مبینہ غلط استعمال سے متعلق الزامات پر اپنی صفائی پیش کریں گے۔ کمیٹی کے چیئرمین کانگریس کے رکن پارلیمان اور سابق وزیر ششی تھرور ہیں۔ یہ کمیٹی شہری حقوق کی حفاظت اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے مبینہ غلط استعمال پر فیس بک کا موقف سنے گی۔

اس میٹنگ سے عین ایک دن قبل بی جے پی کے سینئر رہنما اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر روی شنکر پرساد نے فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ فیس بک انڈیا کی ٹیم سیاسی نظریات کی بنیاد پر تفریق کرتی ہے۔ انہوں نے خط میں یہ الزام بھی لگایا ہے کہ فیس بک کے ملازمین نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزراء کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے ہیں۔  اس کے علاوہ 2019 کے انتخابات سے قبل فیس بک کی بھارتی انتظامیہ نے دائیں بازو کے نظریات والے اکاونٹس کو اپنے پلیٹ فارم سے ڈیلیٹ کردیا تھا اور ان کی رسائی کم کردی تھی۔

بھارتی وزیر نے زکربرگ کو تحریر کردہ اپنے خط میں الزام لگایا ہے کہ فیس بک انڈیا کے کئی سینئر افسران خصوصی سیاسی نظریات کے حامی ہیں۔ انہوں نے فیس بک سے متوازن اور غیر جانبدار رویہ اپنا نے کو کہا ہے۔


خیال رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں ایک مضمون کی اشاعت کے بعد اپوزیشن کانگریس نے بھی مارک زکر برگ کو خط لکھا تھا۔

 کانگریس نے الزام لگایا تھا کہ فیس بک اور بی جے پی میں سانٹھ گانٹھ ہے اور بی جے پی اس امریکی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کنٹرول ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ بھارت میں فیس بک کے ملازمین نے بی جے پی سے وابستہ کچھ رہنماوں اور کارکنوں کے اکاونٹس کو ان کے نفرت آمیز پوسٹس کی وجہ سے بند کردینے کی سفارش کی تھی لیکن بھارت میں فیس بک کی پبلک پالیسی کی سربراہ آنکھی داس نے ان نفرت آمیز پوسٹس کو شائع کرنے کی اجازت دی۔   اخبار کے مطابق انہوں نے'ہیٹ اسپیچ‘ کے سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے کے بجائے کمپنی کے کاروباری مفادات کی تکمیل کے لیے ایسا کیا۔

 آنکھی داس نے ان الزامات کی تردید کردی تھی۔ آنکھی داس کے بی جے پی اور وزیر اعظم مودی سے قریبی تعلقات بتائے جاتے ہیں۔ ان پر عائد الزامات کے بعد وزیر اعظم مودی سمیت بی جے پی کے متعدد رہنماوں کے ساتھ ان کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں۔

اپوزیشن کانگریس فیس بک پر بی جے پی کے تئیں جانبدارانہ رویہ اپنانے کا الزام لگاتی رہی ہے اور مرکزی وزیر روی شنکر پرساد کے خط کے بعد اب اس نے حکومت سے کہا ہے کہ اس معاملے کی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے تفتیش کرائے۔

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی، جو فیس بک اور وہاٹس ایپ پر بھارت کے معاملات میں دخل اندازی کا مسلسل الزام لگاتے رہے ہیں، نے منگل کے روز بھی امریکی سوشل میڈیا کمپنی پر حملہ کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ” فیس بک اور وہاٹس ایپ کے بھارت کی جمہوریت اور سماجی خیر سگالی پر حملوں کو بین الاقوامی میڈیا نے پوری طرح اجاگر کردیا ہے۔ کسی بھی غیر ملکی کمپنی کو ہمارے ملک کے داخلی معاملات میں دخل دینے کا اختیار نہیں ہے۔ اس کی فوراً انکوائری ہونی چاہیے اور قصور پائے جانے پر سزا دی جانی چاہیے۔“

فیس بک نے وفاقی وزیر روی شنکر پرساد کے خط اور راہو ل گاندھی کے تازہ ترین ٹوئٹ پر ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

جعلی خبریں کیسے پہچانی جاسکتی ہیں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں