بھارت: مہاجر مزدور پھر حیران و پریشان
20 اپریل 2021بھارت میں کورونا کی دوسری لہر کے سبب متعدد شہروں میں لاک ڈاؤن جیسی بندشوں کے نفاذ کے اعلان کے ساتھ ہی مہاجر مزدور ایک بار پھر اپنے آبائی علاقوں کی طرف کوچ کرنے لگے ہیں۔
دارالحکومت دہلی میں حکام نے 19 اپریل بروز پیر جیسے ہی ایک ہفتے کے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا مہاجر مزدوروں کی ایک بڑی تعداد اپنے گھروں کی جانب روانہ ہونے کے لیے بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں کی جانب جوق در جوق نکل پڑی۔
ان میں سے بیشتر افراد کا تعلق ریاست یوپی، بہار اور جھار کھنڈ سے ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران ایک بار پھر ذریعہ معاش کے چلے جانے کے خوف سے اپنے آبائی علاقوں کی جانب لوٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اس کا سب سے زیادہ اثر صنعتی شہر ممبئی میں دیکھنے کو ملا تھا جہاں پندرہ روز کے لیے کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔ ممبئی میں اب بھی ہزاروں مزدور ریل کے ذریعے اپنی گھر واپسی کی کوشش میں ہیں تاہم ٹرینیں کم ہونے کی وجہ سے ریلوے اسٹیشنوں پر زبردست بھیڑ لگی ہوئی ہے۔
مزید بھیڑ جمع ہونے سے روکنے کے لیے بہت سے اسٹیشن پر حکام نے مزید ایسے افراد کا داخلہ بھی ممنوع کر دیا ہے جس سے مزدوروں کی بے چینی بڑھ گئی ہے۔
مہا جر مزدوروں کے خدشات
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے موقع پر جب صنعتی شعبے میں پھر سے بہتری ہونا شروع ہوئی تھی، ان مزدوروں کے چلے جانے سے صنعتیں بری طرح متاثر ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکام مہاجر مزدوروں کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ انہیں اپنے گھر واپس جانے کی ضرورت نہیں ہے اور ان کا خیال رکھا جائے گا۔ تاہم گزشتہ روز سے ہی دہلی کے بیشتر بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر زبردست بھیڑ ہے۔
انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی لاک ڈاؤن کی میعاد اگر بڑھ گئی تو بے روزگاری کے سبب وہ برباد ہو جائیں گے۔ بہت سے مزدور رمضان میں محنت مزدوری کر کے اہل و عیال کے لیے شاپنگ کے ساتھ عید پر گھر واپس جاتے ہیں۔
تاہم موجودہ صورت حال کے پیش نظر شہروں میں روزگار کے مواقع کم نظر آ رہے ہیں اس لیے وہ پہلے ہی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ پھنس گئے تو کہیں کے نہیں رہیں گے۔
گزشتہ برس کے مناظر
گزشتہ برس بھی اپریل اور مئی کے مہینے میں دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں سے مہاجر مزدوروں کی ہجرت کا جس طرح کا سلسلہ شروع ہوا تھا تقریبا اسی طرح کے مناظر پھر سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ گزشتہ برس نقل و حمل کے تمام ذرائع پر بھی پابندیاں عائد تھیں اس لیے مزدور پیدل سفر پر چل پڑے تھے۔
اس بار گرچہ محدودو پیمانے پر ہی صحیح تاہم بسیں اور ریل سروس چل رہی ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس بھیڑ سے بچنے کے لیے کوئی اضافی سروسز مہیا نہیں کی گئی ہے۔
ریلوے اسٹیشن اور بس اڈوں پھر پھیلی اس بد نظمی سے یہ خدشہ بھی پیدا ہو گيا ہے کہ اس سے انفیکشن کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔ اگر شہروں سے متاثرہ افراد دیہی علاقوں تک پہنچے تو پھر یہ وبا گاؤں گاؤں تک پھیل سکتی ہے۔
بھارت سفر نہ کرنے ایڈوائزری
اس دوران امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک نے بھارت کے لیے سفر کرنے یا پھر بھارت سے اپنے ملک کے لیے سفر کرنے کے خلاف ایڈوائزری جاری کی ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اگر بہت ضروری بھی ہو تو پہلے ویکسینیشن مکمل کریں اور پھر بھارت کے سفر کے لیے نکلیں۔ برطانیہ نے بھی اسی طرح کی کئی شرائط عائد کی ہیں۔
اس سے قبل ہانگ کانگ اور نیوزی لینڈ نے بھارت کے سفر پر پابندی عائد کرتے ہوئے بھارت سے آنے جانے والی تمام پروازوں کو دو ہفتے کے لیے منسوخ کر دیا تھا۔
دریں اثنا گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں حکومت کی جانب سے جاری ہونے اعداد و شمار کے مطابق اس وبا سے ایک ہزار سات سو 61 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ڈھائی لاکھ سے بھی زیادہ نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بھارتی حکومت نے بری فوج اور فضائیہ سے اس صورت حال سے نمٹنے میں مدد کی اپیل کی ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے فوجی سربراہ جنرل ایم ایم نرونے سے کہا کہ فوجی یونٹ صوبائی سطح پر مقامی انتظامیہ سے رابطے کر سکتے ہیں۔