بھارت، ’میڈ انِ فرانس‘ مرتبان میں سانپ کے زہر کی اسمگلنگ
28 جون 2015بھارتی حکام نے اتوار کے روز بتایا کہ سانپ کے زہر کی اسمگلنگ کرنے والے اس گروہ کے اراکین کو بھوٹان کی سرحد کے قریب مشرقی بھارتی علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ گینگ دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھا۔ ان اسمگلرز نے اسکول کے بیگ ہاتھوں میں اُٹھا رکھے تھے، جن میں تین بُلٹ پروف شیشے کے مرتبان میں پندرہ ملین ڈالر مالیت کا زہر بھرا ہوا تھا۔
پولیس نے انہیں ہفتے کے روز مغربی بنگال کے ضلع جلپائی گوری کے بائیکُنتپور نامی جنگلاتی علاقے سے گرفتار کیا تھا۔ ان جنگلات کے ڈویژنل آفیسر پی آر پردھان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ عالمی منڈی میں اس وقت سانپ کے اس زہر کی قیمت کم از کم سو کروڑ روپے یا پندرہ ملین ڈالر ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کنٹینرز یا مرتبانوں پر Made in France درج ہے۔
جنگلات کے ڈویژنل آفیسر نے کہا کہ اسمگلنگ کرنے والے اس گروہ کے گرفتار ہونے والے اراکین کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ مرتبان فرانس سے ارسال کیے گئے تھے جنہیں بنگلہ دیش سے اُٹھایا گیا اور انہیں بھوٹان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ پی آر پردھان کے مطابق مائع شکل کا یہ زہر کوبرا کا معلوم ہوتا ہے تاہم اس کے بارے میں ابھی کیمیکل تجزیے کیے جا رہے ہیں۔
جالپائی گوری کے پولیس چیف آکاش میگھاریا نے کہا ہے کہ گرفتار ہونے والے اسمگلرز سے اُن کے تاجروں کے کسی بین الاقوامی انجمن سے ممکنہ تعلق کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی ہے اور یہ گروہ ایک بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان اسمگلرز کو وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ اس قانون کے مطابق کوبرا سمیت چند دیگر سانپوں کے زہر کو نکالنے کے عمل پر پابندی عائد ہے۔
بھارتی قوانین کے تحت بہت سے سانپوں کے زہر نکالنے کی اجازت بھی ہے۔ وائلڈ لائف امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سانپوں کے زہر اور اُن کی کھال کا غیر قانونی کاروبار وسیع پیمانے پر ہو رہا ہے اور آئے دن اس بارے میں رپورٹنگ بھی کی جاتی ہے۔
سانپ سے نکالا ہوا زہر زیادہ تر سانپ کے کاٹے کے علاج یا تریاق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال نصف ملین اموات کا سبب سانپ کا ڈسنا بنتا ہے۔ واضح رہے کہ سانپ کا زہر چند کاسمیٹکس میں بھی استعمال ہوتا ہے۔