بھارت میں اقتصادی اصلاحات کے لیے حکومت کی مشکلات
9 دسمبر 2011بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ گزشتہ ماہ انڈونیشیا میں ایسٹ ایشیاء سمٹ سے خوشی خوشی وطن لوٹے تھے۔
منموہن سنگھ گزشتہ ماہ انڈونیشیا سے نئی دہلی پہنچے تو وہاں حالات ان کے جذبات کی عکاسی نہیں کر رہے تھے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ وہاں بدعنوانی کے نرغے میں پھنسی ان کی حکومت بے جان سی پڑی تھی۔
نئی دہلی حکام کے ایک واقف کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے پر روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’وہ خوش خوش (انڈونیشیا سے) واپس لوٹے تھے اور یہ دکھانا چاہتے تھے کہ ہر چیز ان کے قابو میں ہے۔‘‘
ان حالات میں انہوں نے جلدی سے ساڑھے چار سو ارب ڈالر کی ملکی ریٹیل مارکیٹ کو غیرملکی آپریٹرز کے لیے کھولنے کا اعلان کر دیا۔ انہیں اور ان کی کابینہ کو امید تھی کہ اس اقدام سے اشد ضروری غیرملکی سرمایہ کاری بڑھے گی، سپلائی کا نظام بھی بہتر ہوگا اور افراطِ زر کی شرح کم ہو گی، جو اس وقت ڈبل ڈیجٹ پر کھڑی ہے۔
ان کے سیاسی واقف کار کے مطابق منموہن سنگھ اس بات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے کہ یہ کام نمٹ جائے اور وہ جانتے تھے کہ اس مقصد کے لیے انہیں عملی قدم اٹھانا ہوگا۔ تاہم ملکی منڈیوں کو غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے کھولنے کے ان کے منصوبے کو ان کے سیاسی حریفوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ حکومت کے بعض اتحادیوں نے بھی اس پر اعتراض کیا۔
اس پر دو ہفتوں کے اندر اندر ہی حکومت نے یہ منصوبہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا۔ ریٹیل اصلاحات کی منظوری کے لیے کابینہ کی منظوری ہی ضروری تھی، جو اسے مل گئی تھی۔ تاہم منموہن سنگھ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بھی لے گئے، جہاں اپوزیشن جماعتوں کو اس کی مخالفت کا موقع ملا۔
روئٹرز نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ یوں منموہن سنگھ اس معاملے کو احسن طریقے سے نہیں نبھا پائے اور اسی وجہ سے ریٹیل اصلاحات کا ان کا منصوبہ بظاہر ناکام رہا ہے۔
یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ منموہن کی حکمران جماعت کانگریس جو عرصے سے سیاست پر حاوی رہی ہے، اسے اب غیریقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ بھارت میں گزشتہ پندرہ برس سے زائد عرصے سے اتحادی حکومتیں ایک روایت بن چکی ہے، جس کی وجہ سیاسی نظام کی غلطیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں علاقائی سیاسی جماعتیں حکومت میں شامل ہو کر اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں رہتی ہیں۔ اصلاحات کے منصوبے کو درپیش رکاوٹوں کی وجہ بھی یہی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عصمت جبیں