1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سابق سربراہ کے خلاف مقدمہ

6 جون 2020

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت میں اپنے سابق سربراہ کی ایک ٹوئیٹ کے خلاف پولیس کیس درج ہونے پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3dLEi
Indien Aakar Patel, Amnesty International
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

بھارت کے جنوبی شہر بنگلور میں پولیس نے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا‘ کے سابق سربراہ اور معروف صحافی آکار پٹیل کی ایک ٹوئیٹ کے خلاف کیس درج کیا ہے جس کی کئی جانب سے مذمت ہو رہی ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ آکار پٹیل نے اپنی ٹوئیٹ سے امریکا میں ’بلیک لائیوز مَیٹر‘ کی طرز پر بھارت کی اقلیتی برادری کو احتجاج پر اکسانے کا کام کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنشیل انڈيا کے سربراہ اویناش کمار نے اپنی تنظیم کے سابق سربراہ آکار پٹیل کے خلاف کیس درج کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے پولیس کی کارروائی کے خلاف اپنے ایک بیان میں کہا، ’’یہ اس کی ایک اور مثال ہے کہ کس طرح ملک میں اختلاف رائے کے حق کو تیزی سے جرم قرار دیا جارہا ہے۔ بنگلور پولیس کو اپنے اختیارات کے بے جا استعمال سے فوری طور پر باز آنے کی ضرورت ہے۔ پولیس آکار پٹیل کو اظہار آزادی کے اپنے آئینی حق کے استعمال کے لیے انہیں زد و کوب اور ہراساں کرنا بند کرے۔‘‘

آکار پٹیل کے خلاف مقدمہ بنگلور میں جے سی نگر کے ایک انسپکٹر  ڈی آر ناگ راج نے درج کیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ مسٹر پٹیل نے بھارتی مسلمانوں اور دلتوں کو اسی طرح کے احتجاجی مظاہروں کے لیے اشتعال دلایا ہے جیسے امریکا میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔

آکار پٹیل نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں امریکی ریاست کولاراڈو میں ہونے والے ایک مظاہرے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’ہمیں مسلمانوں، دلتوں قبائیلیوں، غریبوں اور خواتین کی جانب سے اسی طرح کے احتجاجی مظاہروں کی ضرورت ہے۔ دنیا اس کا نوٹس لےگی۔ احتجاج بھی ایک فن ہے۔‘‘ آکار پٹیل شہریت سے متعلق بھارت کے متنازعہ قانون کے خلاف رہے ہیں اور اس کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔

Amnesty International Protest Wahlen in Malin 2013
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm

بھارت میں لاک ڈاؤن سے قبل تک شہریت سے متعلق نئے قانون کے خلاف کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے جاری تھے۔ لیکن جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں مظاہروں کی اجازت نہیں تھی اور اگر ایسا کچھ ہوتا تھا تو پولیس کی طرف سے طاقت کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ریاست کرناٹک میں بھی بی جے پی کی حکومت نے طاقت کے زور پر مظاہرین کو دبا دیا تھا لیکن لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد سب سے پہلا مظاہرہ بنگلور میں ہوا ہے اور امکان ہے کہ ایک بار پھر سے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا دور شروع گا۔ پولیس کی اس پر خاص نظر رہتی ہے اور اسی کے پیش نظر یہ کیس درج کیا گيا ہے۔

لیکن بھارت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے موجودہ سربراہ اویناش کمار نے پولیس کی کارروائی کو غیر قانونی بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اس ملک میں لوگ اہل اقتدار سے متفق ہونے یا اختلاف رکھنے کا حق رکھتے ہیں۔ وہ غیر قانونی مداخلت کے خوف اور خطرے کے بغیر  پر امن مظاہروں کے ذریعے اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔ حکومت کے خلاف پر امن مظاہرے جرم نہیں ہیں۔ اہل اقتدار کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے سے آپ باغی نہیں ہو جاتے ہیں۔‘‘

ادھر آکار پٹیل نے اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ سے بات چيت میں کہا کہ انہیں میڈیا سے ہی اس بارے میں پتہ چلا ہے اور ابھی تک ایف آئی آر انہیں نہیں ملی ہے: ’’لیکن میں مطمئن ہوں کیونکہ میری ٹوئیٹ کی بنیاد پر کوئی کیس نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘

اس دوران نئی دہلی میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما کی شکایت کی بنیاد پر کرائم برانچ کی پولیس نے بھارت کے معروف صحافی ونود دوا کے خلاف ایک کیس درج کیا ہے۔ ان پر اپنے ایک پروگرام کے ذریعے عوام کے لیے پریشانیاں کھڑی کرنے کا الزام ہے۔

ونود دوا نے اس کے رد عمل میں اپنے فیس بک پر لکھا، ’’دوستوں بی جے پی نے میرے خلاف کیس درج کروایا ہے۔ کیا میں اتنا اہم ہوں۔‘‘ 

شاہین باغ میں خواتین کا احتجاج جاری

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں