1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں ایٹمی پاور پلانٹ کی تعمیر پر احتجاج

16 مارچ 2011

جاپان میں جوہری تباہی کو روکنے کے لیے جاری سرتوڑ کوششوں کے تناظر میں بھارت میں بھی نئے سرے سے یہ مطالبات کیے جانے لگے ہیں کہ بھارت کے مغربی ساحلوں پر مجوزہ ایک بڑے ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر کے منصوبے ختم کر دیے جائیں۔

https://p.dw.com/p/10ZlW
ممبئی کے قریب ایٹمی مرکزتصویر: AP

پروگرام کے مطابق یہ جوہری پاور پلانٹ ریاست مہاراشٹر میں جیٹاپور کے مقام پر تعمیر کیا جائے گا۔ اپنے چھ ری ایکٹرز کے ساتھ یہ دُنیا کے بڑے جوہری پلانٹس میں سے ایک ہو گا، جہاں 9600 میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔

ایٹمی بجلی گھروں میں پانی کی کھپت چونکہ بہت زیادہ ہوتی ہے، اِس لیے عموماً ایسے بجلی گھر سمندروں کے قریب تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بھارتی ساحلوں پر پہلے سے کئی ایٹمی پاور پلانٹس کام کر رہے ہیں تاہم اب یہ جنوبی ایشیائی ملک مزید ایٹمی بجلی گھر تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ سن 2050 تک وہ اپنی ضرورت کی 25 فیصد بجلی ایٹمی بجلی گھروں سے حاصل کر سکے۔

Anil Kakodkar Chef der indischen Atomenergiebehörde
بھارت کے اٹامک انرجی کمیشن کے سابق چیئرمین انیل کاکوڈکرتصویر: AP

تاہم جہاں تک جیٹا پور ایٹمی پاور پلانٹ کا تعلق ہے، مقامی آبادی اور ماحول پسند حلقے اِس کے خلاف بڑے پیمانے پر آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ اِس پلانٹ کی تعمیر سے ایک تو زمینی رقبہ ہاتھ سے چلا جائے گا، پھر تابکاری کے بھی خطرات ہوں گے جبکہ ماحولیاتی اعتبار سے حساس مغربی گھاٹ کا علاقہ تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ماحولیاتی لابی گروپ Toxic Links کے راجیو بیٹنے نے کہا، ’’جاپان کے حالات سے ہماری اور بھارتی حکومت کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ جاپان میں جو کچھ ہوا ہے، اُسے دیکھ کر جیٹا پور کے رہائشی بلاشبہ خوفزدہ ہیں۔‘‘

Indien Atomkraftwerk in Kalpakkam bei Madras Kontrollraum
ایک بھارتی ایٹمی پاور پلانٹ کا اندرونی منظرتصویر: AP

گزشتہ برس جیٹا پور میں متعدد احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے، جن میں مجموعی طور پر دَس ہزار سے زیادہ ماہی گیروں، کسانوں اور اُن کے خاندانوں نے شرکت کی تھی۔ یہ لوگ جہاں جوہری تابکاری کے خطرات کی شکایت کر رہے تھے، وہیں اُن حکومتی منصوبوں کو تسلیم کرنے سے انکار بھی کر رہے تھے، جن کا مقصد اِن لوگوں کو اِن کے آبائی گھروں سے نکالنا اور کہیں اور لے جا کر آباد کرنا ہے۔

ایٹمی توانائی کی مخالفت کرنے والی ماحول پسند تنظیم گرین پیس کا کہنا بھی یہ ہے کہ اب اِس پلانٹ کی تعمیر کے منصوبے منسوخ کر دیے جانے چاہئیں۔ تاحال پروگرام کے مطابق اِس پاور پلانٹ کی تعمیر کا کام سن 2013 میں شروع ہو گا اور اِس میں بجلی پیدا کرنے کا عمل سن 2018 سے شروع ہو جائے گا۔

بھارت کے جوہری ماہرین البتہ برابر یقین دلا رہے ہیں کہ اِس مجوزہ پلانٹ پر کسی زلزلے یا سونامی کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ بھارت کے اٹامک انرجی کمیشن کے سابق چیئرمین انیل کاکوڈکر نے پیر کے روز کہا، ’’جاپان میں زلزلہ اور بھارت میں زلزلہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ سونامی نہیں آئے گا لیکن اُس کی شدت اتنی زیادہ نہیں ہو گی۔ ویسے بھی جیٹاپور ایک بلند مقام پر واقع ہے، جہاں سونامی کے پہنچنے کا امکان کم ہے۔‘‘

Seebeben Indien Atomkraftwerk überschwemmt
2004ء میں مدراس کے قریب ایٹمی مرکز کا ایک ملازم وہ جگہ دکھا رہا ہے، جہاں زلزلے کے بعد ایک جوہری پاور پلانٹ سمندری لہروں کی زَد میں آیا تھا اور اُسے نقصان پہنچا تھاتصویر: AP

بھارتی اٹامک انرجی کمیشن کے موجودہ چیئرمین سری کمار بینرجی نے زور دے کر کہا کہ بھارت کے مستقبل کے لیے اِس پلانٹ کی تعمیر بہت ضروری ہے کیونکہ ملک میں توانائی کی مانگ بہت زیادہ ہے، جس میں آگے چل کر اور اضافہ ہوتا جائے گا۔

بھارت ایٹمی توانائی کے منصوبوں کو سن 2008 کے بعد سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے۔ یہ وہ سال تھا، جب امریکہ اور بھارت کے درمیان جوہری سا ز و سامان کی تجارت پر تین عشروں سے چلی آ رہی پابندی ختم ہوئی تھی اور سابق صدر جورج ڈبلیو بُش نے بھارت کے ساتھ طے ہونے والے جوہری تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اِسے قانون کی شکل دی تھی۔

اُس کے بعد سے فرانس، روس اور نجی شعبے کی امریکی اور جاپانی فرمیں بھارت کو ری ایکٹرز فروخت کرنے کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ فرانسیسی کمپنی Areva نے جیٹا پور پاور پلانٹ کے پہلے دو ری ایکٹرز فراہم کرنے کے 9.3 ارب ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اِنہیں تیسری نسل کے دباؤ والے واٹر ری ایکٹرز کا نام دیا جا رہا ہے۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں