بھارت میں جہیز کی نہ ختم ہونے والی لعنت
17 ستمبر 2013خاص طور سے لڑکیوں کو اپنے سسرال میں سر اُٹھا کر جینے کے لیے بھی جہیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جہیز یا زیورات لڑکیوں کے لیے بُرے وقتوں میں مالی تحفظ کی بھی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایک امریکی مؤرخ وینا تلور اولڈنبرگ جہیز کے موضوع پر اپنی کتاب ’ڈاؤری مرڈر، دی امپیریل اوریجنز آف اے کلچرل کرائم‘ میں لکھتی ہیں کہ برصغیر پر قریب ایک صدی تک نو آبادیاتی برطانوی دور میں جہیز کی حیثیت تبدیل ہو گئی۔ اُس زمانے میں بڑے پیمانے پر آنے والی اقتصادی اور معاشرتی تبدیلوں کی وجہ سے لڑکیوں کو اپنے قیمتی جہیز کے حق سے محروم ہونا پڑا۔ ان کا اپنی ان قیمتی چیزوں پر کوئی کنٹرول نہ رہا۔ جہیز لڑکیوں سے زیادہ اُن کے سسرال کی ملکیت بنتا چلا گیا۔ اس کے سبب معاشرے میں لڑکیوں کی قدر وقیمت کم ہوتی چلی گئی۔
معاشرے کی گہری جڑیں
اب رواج یہ ہو گیا ہے کہ لڑکی کے ماں باپ جہیز کی رقم لڑکی کی بجائے اُس کے سسرال والوں کے حوالے کر دیتے ہیں، جس سے وہ شادی کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جہیز کمائی کا ایک اہم ذریعہ بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر خاندانوں میں اولاد کی خواہش اب بیٹے کی پیدائش کی خواہش میں تبدیل ہو گئی ہے اور بہت سے گھرانوں میں بیٹیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
بھارت کی چند ریاستوں میں تو اب بھی لڑکیوں کو پیدائش کے فوراً بعد ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ دولہا کی طرف سے زیادہ سے زیادہ جہیز کی توقعات بہت سے گھرانوں کے مابین بڑے تنازعات کا سبب بن رہی ہیں۔ اس کا دباؤ بھی خواتین ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بھارت میں جہیز کے تنازعات کے سبب ہر سال ہزاروں خواتین کو زدو کوب کرنے، اذیت رسانی کا شکار بنانے، یہاں تک کہ انہیں زندہ جلا دینے تک کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اس وجہ سے 1961ء سے بھارت میں جہیز پر قانونی طور پر پابندی عائد ہے۔ اس کے باوجود اس لعنت کو برقرار رکھنے والے معاشرے کے ہر طبقے میں پائے جاتے ہیں۔
تشدد اور اُس کے نتائج
بھارت کے جرائم سے متعلق سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ برسوں میں جہیز کے تنازعے کے سبب خواتین کے ساتھ تشدد کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ 2001ء میں انہی اسباب کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد 6851 تھی جبکہ 2012ء میں یہ تعداد بڑھ کر 8223 ہو گئی۔ یہ امر تاہم واضح نہیں ہے کہ آیا واقعی اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یا اب محض جرائم کے زیادہ کیسز درج کرائے جانے لگے ہیں۔ اسی اثناء میں ایسے کیسز میں سزا سنائے جانے کی تعداد ماضی جتنی یعنی کم ہی رہی۔ صرف ہر تیسرے مجرم کو سزا دی گئی۔
نئی دہلی کے سینٹر فار سوشل ریسرچ کی ڈائریکٹر رنجنا کماری کے بقول، ’’ایک تو یہ کہ پولیس کی تفتیشی کارروائی ناقص ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کی تعداد بہت کم ہے اور ان میں سے ایک بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ اہلکاروں کی ہے۔ دوسرے یہ کہ پولیس محکمے میں کرپشن یا بدعنوانی عروج پر ہے۔ بہت سے پولیس اہلکار مقدمہ دائر کرنے والوں سے کیس کی کارروائی کے لیے رشوت مانگتے ہیں اور اگر رشوت نہ ملے تو مقدمے کی کارروائی نہیں کرتے۔ اس وجہ سے تشدد کی شکار خواتین کے گھر والے مقدمہ دائر ہی نہیں کرتے۔‘‘
مختلف بھارتی ریاستیں مختلف انداز میں اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو میں 1992ء سے پولیس میں اس کے لیے ایک خصوصی یونٹ قائم ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تامل ناڈو میں اس یونٹ کی دو سو شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔
ماہرین کے مطابق جہاں شہریوں کو جہیز لینے اور دینے سے انکار کرتے ہوئے ہر محاذ پر اس لعنت کے خاتمے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے، وہاں حکومتوں کو بھی ہر طرح سے آگے آ کر اس شرمناک رواج کے آگے بند باندھنے میں مدد دینا چاہیے۔