بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے پر تشویش
22 نومبر 2022بھارتی میڈیا میں گزشتہ تقریبا ایک ہفتے سے ایک مسلم نوجوان کی ہندو لڑکی سے شادی اور پھر دارالحکومت دہلی میں اس لڑکی کا قتل نیز اس کے درجنوں ٹکڑے کرنے سے متعلق ابھی گرما گرم بحث جاری ہی تھی کہ خواتین کے ساتھ جرائمکے ایسے متعدد دیگر واقعات کی خبریں بھی ملک کے مختلف حصوں سے آنے لگیں۔
بھارت میں دلت خواتین کے خلاف جنسی جرائم کبھی رکیں گے بھی؟
تازہ واقعات میں ریاست اتر پردیش میں ایک شخص نے اپنی سابقہ گرل فرینڈ کے چھ ٹکڑے کر کے کنوئیں میں پھینک دیا جبکہ ریاست مدھیہ پردیش میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے دو ٹکڑے کر کے جنگل میں دو مختلف مقامات پر دفنا دیے۔
پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم: وجوہات کیا ہیں؟
چند روز قبل ہی متھرا کے پاس ایک 22 سالہ خاتون کی لاش قومی شاہراہ کے پاس سے سوٹ کیس میں رکھی ہوئی ملی تھی اور پولیس کے مطابق اس لڑکی کا تعلق بھی دہلی سے ہے۔ پولیس کے مطابق ان کیسز میں بعض ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
گھریلو تشدد کے خلاف ہیلپ لائن، مزید ٹھوس اقدامات درکار
تازہ واقعات کیا ہیں؟
ریاست اتر پردیش میں پولیس کا کہنا ہے کہ ضلع اعظم گڑھ میں پرنس یادو نامی ایک شخص کو 20 سالہ ایک لڑکی کے قتل کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یادو پر الزام ہے کہ انہوں نے مذکورہ لڑکی کو اس لیے قتل کر دیا کیونکہ اس نے ان کے ساتھ شادی سے انکار کر کے کسی دوسرے سے شادی کر لی تھی۔
قتل کے بعد لڑکی کی لاش کے متعدد ٹکڑے کر کے ایک کنویں میں پھینک دیے گئے جنہیں، بر آمد کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق متاثرہ لڑکی کا نام آرادھنا ہے، جس کا تعلق ضلع اعظم گڑھ کے عشق پور سے تھا۔
ایک اور تازہ واقعہ مدھیہ پردیش کے شہڈول کا ہے، جہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کا قتل کرنے کے بعد اس کے بھی کئی ٹکڑے کر دیے اور پھر انہیں جنگل میں مختلف جگہوں پر دفن کر دیا۔
اس کیس میں مقتول کی شناخت سرسوتی پٹیل کے طور پر کی گئی ہے جبکہ پولیس کے مطابق ملزم ان کے شوہر رام کشور پٹیل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے مبینہ طور پر بے وفائی کے شک و شبہے میں بیوی کو کلہاڑی کے وار سے قتل کر دیا۔
آج ہی پولیس نے بتایا ہے کہ یمنا ایکسپریس وے سے جس لڑکی کی لاش ایک سوٹ کیس میں سے برآمد کی گئی تھی، اس کے چہرے اور سر پر خون کے نشان کے ساتھ ہی اس کے پورے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں۔
ایک پولیس اہلکار کا کہنا تھا: ''ہمیں اس بارے میں اہم سراغ ملے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ لڑکی کا نام آروشی یادو اور والد کا نام نتیش یادو ہے۔ یہ خاندان دہلی کے بدر پور میں رہتا ہے۔''
دہلی کا ایک اور واقعہ؟
بھارتی میڈیا میں گزشتہ ایک ہفتے سے جس قتل پر سب سے زیادہ بحث ہوئی، وہ نوجوان خاتون شردھا واکر کا ہے۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف ایک مسلم نوجوان آفتاب پونے والا سے شادی کی تھی۔
پولیس کا دعوی کہ آفتاب اور شردھا میں اکثر لڑائی ہوتی رہتی تھی جس، سے تنگ آ کر ملزم نے پہلے گلا گھونٹ کر ان کا قتل کر دیا اور پھر لاش کے 35 ٹکڑے کر کے اپنی فرج میں انہیں رکھا۔ پھر ملزم نے ہر روز تھوڑے تھوڑے ان ٹکڑوں کو دہلی کے مضافات کے جنگل میں مختلف جگہوں پر پھینک دیا۔
بیشتر بھارتی میڈیا میں تقریباً ہر موضوع پر ہی آج کل بحث ہندو اور مسلمان کے زاویے سے کی جاتی ہے اور اس واقعے کو بھی ہندو اور مسلمان کا زاویہ دینے کی پوری کوشش کی گئی۔ انسانی حقوق کے کارکنان کہتے ہیں کہ چونکہ موجودہ بھارتی حکومت ''ہر چیز کو ہندو مسلم کے چشمے سے دیکھتی ہے'' اس لیے ایسا ہو رہا ہے۔
سماجی کارکن شبنم ہاشمی کہتی ہیں: اسے نفرت پھیلانے کے مقصد سے ایک اوزار کے طور استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔ اگر دونوں ہندو ہوں، تو ایسے جرائم کو تو رپورٹ بھی نہیں کیا جاتا ہے۔ دلت لڑکا اگر اونچی ذات والی لڑکی سے شادی کر لے پھر اگر لڑکا مسلم ہو تو، بس اس پر ہنگامہ ہوتا ہے۔
تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں: ''یہ اسی سیاست کا حصہ ہے جس نے اس ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک رکھا ہے۔ جو طاقتیں ایسا کرتی ہیں، انہیں حکومت کا پورا تعاون حاصل ہے۔''
خواتین کے خلاف تشدد کی وجوہات کیا ہیں؟
شبنم ہاشمی کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد تو پہلے بھی تھا، تاہم اس حکومت میں اس کو بڑھاوا ملا ہے۔ ''لنچنگ جیسے واقعات سے تشدد کا کلچر بڑھتا جا رہا ہے اور یہ معمول کی بات ہوتی جا رہی ہے۔ تشدد کے ماحول میں عورت پہلا ہدف ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملزموں کو سزا نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے، جیسے انہیں استثنی حاصل ہو۔''
شبنم ہاشمی کے مطابق حکومت اس کی ذمہ دار ہے اور اس حوالے سے جو قوانین ہیں انہیں مزید کمزور کیا جا رہا ہے۔ ''پہلے گھریلو تشدد کے معاملے میں ایف آئی آر فوری طور پر درج کی جاتی تھی، اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ پہلے تفتیش ہو گی پھر کیس درج ہو گا اور انکوائری کا مطلب لڑکے والوں سے پیسہ کھا کر کیس کو بند کرنا ہے۔''