1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں عیسائیوں اور گرجا گھروں پر حملے کیوں؟

گوہر نذیر گیلانی7 اکتوبر 2008

گُزشتہ اگست سے بھارت کی کم از کم تین ریاستوں میں ہندو شدت پسند جماعتوں کی طرف سے عیسائیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو بظاہر تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/FViF
اُڑیسہ کے ضلع پھول بنی میں واقع اس گرجا گھر کو بھی ہندو شدت پسندوں نے نذر آتش کردیا تھاتصویر: AP

بھارت کی مشرقی ریاست اُڑیسہ میں دس برس قبل آسٹریلوی راہب گریہم سٹینز اور ان کے دو بچوں کو زندہ جلادینے کے واقعے کے نتیجے میں مشرقی بھارتی ریاست بین الاقوامی مرکز نگاہ بنی تھی۔ اور اب رواں برس اگست میں عیسائیوں، ان کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا جس نے آہستہ آہستہ ریاست کرناٹک، مدھیہ پردیش اور کیریلا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اُڑیسہ کے ضلع کاندھامل میں ایک کیتھولک نن کی مبینہ اجتماعی آبرو ریزی کا واقعہ ہو یا پھر اُڑیسہ سمیت دیگر بھارتی ریاستوں میں کئی عیسائیوں کی ہلاکت اور ان کی عباد ت گاہوں پر حملوں کے واقعات ہوں، بھارت کے سنجیدہ حلقوں میں اقلیتوں کے حقوق کے تعلق سے زبردست تشویش ہے اور اس موضوع پر سنجیدہ بحث چھڑ چکی ہے۔

Gewalt gegen Christen in Orissa Indien
عیسائی متاثرین اور سماجی کارکن نئی دہلی میں احتجاجی مُظاہرہ کرتے ہوےتصویر: AP

بھارت کی تین ریاستوں میں عیسائیوں پر حملوں کے تازہ واقعات کے نتیجے میں اب تک تیس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ سرکاری خیموں یا جنگلات میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

ویشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سمیت دیگر شدت پسند ہندو جماعتوں کا الزام ہے کہ عیسائی مبلغیبن یا مشنریز روپے اور دیگر مراعات کا لالچ دے کر ہندوٴوں کو زبردستی اپنا مذہب تبدیل کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، جس کی ہندوستان میں ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ تاہم بھارت میں بسنے والے عیسائی اس الزام کو یکسر مسترد کرتے چلے آرہے ہیں۔ عیسائیوں کا موقف ہے کہ بھارت کا آئین ہر عقیدے کے پیرکاروں کو اپنے مذہب کی ترویج کا حق دیتا ہے اور وہ پرامن طریقے سے، بغیر کسی لالچ اور مراعات کے سہارے، اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں۔

عیسائیوں کا کہنا ہے کہ ''آدی واسی‘‘ کہلائے جانے والے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے ہندو صدیوں سے مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں اور وہ اپنی مرضی سے عیسائیت قبول کررہے ہیں۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں مقیم حقوق انسانی کے سرگرم کارکن گوتم نو لاکھا عیسائیوں پر حملوں کے بظاہر نہ تھمنے والے سلسلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں یں گوتم نولاکھا نے بتایا کہ ایسا معلوم ہورہا ہے جیسے انتظامیہ نہ صرف عیسائیوں پر ہورہے حملوں کو روکنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے بلکہ شاید صورتحال کو جوں کا توں رکھنا چاہتی ہے۔

Gewalt gegen Christen in Orissa Indien
ایک ہندو شدت پسند گرجا گھر کے اوپر ہندو مذہب کا پرچم لہراتے ہوئےتصویر: AP

ابھی حال ہی میں اُڑیسہ کے تقریباً ایک سو عیسائی متاثرین پر مبنی ایک وفد نے بھارتی دارلحکومت نئی دہلی پہنچ کر وہاں اقوام متحدہ کے دفتر پر دستک دی۔

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے عیسائیوں پر ہونے والے حملوں کو ''قومی شرمندگی‘‘ سے تعبیر کیا تھا جبکہ اُڑیسہ کی حکومت نے حالات معمول پر لانے کی کئی مرتبہ یقین دہانی کروائی۔ تاہم وفاقی حکومت کے سخت بیانات اور یقین دہانیوں کے باوجود زمینی حقائق میں کوئی خاص تبدیلی یا بدلاٴو نظر نہیں آرہا۔

عیسائیوں کے مذہبی رہنما پوپ بینیڈکٹ شانزدہم اور رومن کیتھولک چرچ نے بھارت میں عیسائیوں پر ہونے والے حملوں کی شدید الفاظ میں مزمت کی ہے۔