1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں فضائی آلودگی انتہا پر، ملکی سپریم کورٹ بھی ناراض

جاوید اختر، نئی دہلی
17 نومبر 2021

فضائی آلودگی کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے طرف سے کسانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش پر بھارتی سپریم کورٹ نے ان کی سرزنش کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ کسانو ں کے بجائے ٹی وی مباحثے زیادہ آلودگی پھیلا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/436lU
Indien I Smog in Neu Delhi
تصویر: Hindustan Times/imago images

قومی دارالحکومت دہلی اور اس کے اطراف میں فضائی آلودگی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ اس کی شدت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 'ایئر کوالٹی انڈکس‘ کے 500 کے پیمانے پر اس آلودگی کی سطح اب 499 ہو گئی ہے، جسے انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔

اس پرخطر صورت حال کے پیش نظر حکومت نے تمام اسکولوں اور کالجوں کو دوبارہ بند کر دیا ہے۔ تمام نجی دفاتر کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے 50 فیصد ملازمین کو گھروں سے کام کرنے کا مشورہ دیں۔ سرکاری دفاتر میں صد فیصد 'ورک فرام ہوم‘ کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ فضائی آلودگی کے باعث حکومت نے کئی دیگر احتیاطی اقدامات بھی کیے ہیں۔

مرکزی وزارت ماحولیات نے دہلی اور اس کے اطراف میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پانچ پاور اسٹیشنوں کو عارضی طور پر بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

Indien - Luftverschmutzung
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS

صرف کسان ہی ذمہ دار نہیں

دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ قومی دارالحکومت میں فضائی آلودگی کی اتنی خراب صورت حال کے لیے بنیادی طور پر پنجاب کے وہ کسان ذمے دار ہیں، جو اپنی فصلوں کی باقیات کو کھیتوں میں ہی جلا دیتے ہیں اور اس آگ کا دھواں دہلی کی فضا کو بھی آلودہ کرتا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے تاہم آج اس مسئلے پر سماعت کے دوران کہا، ''ہم کسانوں کو اس کے لیے سزا نہیں دے سکتے۔ ہم نے پہلے ہی مرکز سے کہا ہے کہ وہ کسانوں کو کم از کم ایک ہفتے کے لیے فصلوں کی باقیات کو نہ جلانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ عدالت نے سخت لہجے میں کہا، ''آپ اعداد و شمار کا سہارا لے کر ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ (اس موضوع پر) ٹی وی چینلز پر ہونے والے مباحثے دیگر ذرائع سے کہیں زیادہ آلودگی پیدا کر رہے ہیں۔ ہرکوئی اپنے ایجنڈے پر کام کرنا چاہتا ہے حالانکہ ہم اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

سپریم کورٹ نے کہا کہ اس نے پہلے بھی کہا تھا اور آج پھر کہہ رہی ہے کہ کسانوں کو متبادل تلاش کرنے کے لیے مراعات دینے کی ضرورت ہے۔ ''یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ فصلوں کی باقیات کو جلانے پر مجبور کیوں ہیں؟ لیکن اس سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ دہلی میں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں آرام فرمانے والے لوگ کسانوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ان کسانوں کے پاس بہت چھوٹے چھوٹے کھیت ہیں۔ آپ جن مشینوں کی باتیں کرتے ہیں، کیا کسان انہیں خریدنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟‘‘

Indien Chhattisgarh Kraftwerk
تصویر: Ravi Mishra/Global Witness

الزام تراشی کے بجائے عملی اقدامات کریں

بھارت میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کے بجائے حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا عام روش ہے۔

مرکز کی بی جے پی کی قیادت والی حکومت دہلی کی عام آدمی پارٹی اور پنجاب میں کانگریس پارٹی کی حکومتوں پر قومی دارالحکومت میں فضائی آلودگی روکنے کے لیے عملی اقدامات نہ کرنے کے الزاما ت عائد کرتی رہی ہے۔ دوسری طرف دہلی اور پنجاب کی حکومتیں اس مسئلے کے حل کے لیے مرکز پر تعاون نہ کرنے کا الزام عائد کرتی ہیں۔

جب مرکزی اور ریاستی حکومت کے وکلاء نے فضائی آلودگی کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی اور اس حوالے سے بعض اعداد و شمار پیش کیے، تو سپریم کورٹ نے اس پر سخت ناراضی ظاہر کی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنّا نے کہا، ''یہ اعداد و شمار ہمارے لیے اہم نہیں ہیں۔ فریقین مسئلے سے ہماری توجہ ہٹانے کی کوشش نہ کریں۔ ہم آلودگی کو کم کرنے کے لیے فکر مند ہیں۔ آپ جب کوئی عوامی ذمہ داری سنبھالتے ہیں، تو آپ کو لوگوں کی تنقید سننے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ جب آپ کا ضمیر مطمئن ہو گا، تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔‘‘

چیف جسٹس رمنّا نے ان الفاظ کے ساتھ دونوں حکومتوں کی سرزنش کی، ''اگر آپ مسائل کو آپس میں گڈ مڈ کرتے رہیں گے، تو اصل مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکے گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں