1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں قدیمی مسجد سے متعلق سروے کے باعث فساد، دو ہلاکتیں

24 نومبر 2024

بھارتی ریاست اتر پردیش میں اتوار کے روز ایک قدیمی مسجد سے متعلق کیے جانے والے ایک متنازعہ سروے کے باعث فسادات شروع ہو گئے، جن میں کم از کم دو افراد مارے گئے۔ سروے اس بارے میں تھا کہ آیا مسجد کی جگہ پہلے ایک مندر تھا۔

https://p.dw.com/p/4nNSc
بھارتی ریاست اتر پردیش  میں سنبھل کی شاہی جامعہ مسجد کا مرکزی دروازہ
بھارتی ریاست اتر پردیش میں سنبھل کی شاہی جامعہ مسجد کا مرکزی دروازہتصویر: Md. Mujassim/DW

اتر پردیش میں لکھنؤ سے 24 نومبر اتوار کے روز ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بھارت میں ملکی سطح پر مذہبی اقلیت کی حیثیت رکھنے والے مسلمان مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں، جب یہ سروے کیا جا رہا تھا کہ آیا اسی ریاست میں موجود اور 17 ویں صدی میں تعمیر کردہ مسلمانوں کی ایک مسجد کی جگہ پر پہلے ہندوؤں کا ایک مندر تھا۔

پولیس کے ساتھ ہلاکت خیز جھڑپیں

شمالی بھارتی ریاست اتر پردیش میں سنبھل نامی تاریخی علاقے کے مقامی پولیس افسر پون کمار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم دو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔‘‘

گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا روکنے کی درخواست مسترد

ساتھ ہی اس پولیس افسر نے یہ بھی کہا کہ ان فسادات میں 16 پولیس اہلکار بھی ''شدید زخمی‘‘ ہو گئے۔

سنبھل کی شاہی جامعہ مسجد کو جانے والے راستے کی نشاندہی کرنے والا ایک بورڈ
سنبھل کی شاہی جامعہ مسجد کو جانے والے راستے کی نشاندہی کرنے والا ایک بورڈتصویر: Md. Mujassim/DW

کیا ایودھیا میں نئی مسجد بن بھی سکے گی؟

اس کے برعکس بھارتی نیوز ایجنسی پی ٹی آئی نے مقامی حکام اور پولیس کے اعلیٰ افسران کا حوالہ دیتے ہوئے ہلاک شدگان کی تعداد تین بتائی ہے۔

بھارت میں قوم پسند اور کٹر مذہبی سوچ کے حامل کئی ہندو گروپوں کی طرف سے متعدد مساجد کے بارے میں ایسے دعوے کیے جا چکے ہیں کہ وہ صدیوں پہلے مغل مسلم حکمرانوں کے دور میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے مندروں کی جگہوں پر تعمیر کی گئی تھیں۔

سنبھل کی شاہی جامعہ مسجد

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ سنبھل میں یہ بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب ایک مقامی عدالت کی طرف سے جاری کردہ حکم کے بعد سرکاری اہلکاروں کی ایک سروے ٹیم آج اس لیے اس مسجد میں داخل ہوئی کہ یہ طے کر سکے کہ آیا سنبھل کی شاہی جامعہ مسجد کی جگہ پر پہلے ہندوؤں کا ایک مندر تھا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایودھیہ میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کیے جانے کے بعد افتتاحی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایودھیہ میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کیے جانے کے بعد افتتاحی تقریب میں حصہ لیتے ہوئےتصویر: Pib /Press Information/Planet Pix via ZUMA Press/picture alliance

سنبھل میں اسی جگہ پر 17 ویں صدی میں شاہی جامعہ مسجد کی تعمیر سے قبل ایک مندر تھا، یہ دعویٰ ایک ہندو پنڈت نے کیا تھا اور ایک مقامی عدالت نے مسجد کا سروے کیے جانے کا حکم بھی اسی پنڈت کی طرف سے دائر کردہ درخواست پر جاری کیا تھا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے شاہی عید گاہ مسجد کا سروے روک دیا

لیکن جیسے ہی سروے ٹیم مسجد میں داخل ہوئی، مقامی مسلمان مظاہرین نے اپنا احتجاج شروع کر دیا، جس کے بعد ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

اس بدامنی کے دوران مظاہرین نے موقع پر موجود پولیس پر پتھراؤ کیا، جس کے جواب میں پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے۔

ایودھیا کے قریب ہی ایک اور قدیم مسجد مسمار کر دی گئی

بابری مسجد - رام مندر تنازعہ اور اس کے تاریخی حقائق

پس منظر میں بابری مسجد اور رام مندر کا تنازعہ

بھارت میں بہت سے ہندو قوم پرست کارکنوں کے حوصلے اسی سال اس وقت کافی بلند ہو گئے تھے، جب وزیر اعظم نریندر مودی نے شمالی شہر ایودھیہ میں ایک نئے اور بہت بڑے رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔ یہ مندر اسی جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے، جہاں ماضی میں صدیوں تک تاریخی بابری مسجد موجود تھی۔

یہ مسجد 1992ء میں ایک ایسی مہم کے دوران مشتعل ہندوؤں نے منہدم کر دی تھی، جس میں ہندو قوم پسند وزیر اعظم نریندر مودی کی اپنی پارٹی کے کارکن پیش پیش تھے۔

رام مندر کا افتتاح: بھارتی مسلمان کیا سوچتے ہیں؟

بابری مسجد کے انہدام کے ساتھ ہی بھارت بھر میں ایسے مذہبی فسادات شروع ہو گئے تھے، جن میں تقریباﹰ دو ہزار افراد مارے گئے تھے۔ مرنے والوں میں اکثریت بھارت کے مسلمان شہریوں کی تھی۔

م م / ش ر (اے ایف پی)

بھارت ہندو راشٹر بننے کی راہ پر ہے، اسدالدین اویسی