بھارت میں ماوٴ نوازوں کے خلاف نئی حکمت عملی
15 جولائی 2010بھارتی وزیر اعظم نے ماوٴ نوازوں سے متاثرہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو نئی دہلی میں ایک اجلاس کے دوران بتایا کہ باغیوں پر قابو پانے کے لئے ریاستی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے مابین بہتر تال میل اور کمیونیکیشن کی ضرورت ہے۔ ’’ہمیں بالخصوص انٹیلی جینس معلومات جمع کرنے اور ان معلومات کے بر وقت تبادلے کے حوالے سے اپنی مفاہمت کو مضبوط بنانا ہوگا۔‘‘
وزیر اعظم ڈاکٹر سنگھ نہ صرف ماوٴ نوازوں کے خلاف سخت کارروائی کے حق میں ہیں بلکہ باغیوں کو یہ احساس بھی دلانا چاہتے ہیں کہ کنٹرول حکومت کے پاس ہے، نکسلیوں کے پاس نہیں۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے واضح ہدایات دی ہیں کہ معدنی ذرائع سے مالا مال جنگلات کو بھی مسلح نکسل باغیوں کے قبضے سے خالی کرایا جائے تاکہ وہاں بھی حکومت کی رٹ قائم ہو سکے اور ساتھ ہی قدرتی وسائل کا صحیح استعمال بھی ممکن بنایا جا سکے۔
نئی دہلی میں وفاقی وزیر داخلہ پی چدم برم نے ماؤ نواز تشدد سے متاثرہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو بتایا کہ مسلح نکسل باغیوں کے خلاف ریاستی حکومتوں کی طرف سے اب تک کی جانے والی کوششوں کا اثر ملا جلا رہا ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق یونیفائیڈ کمانڈ سٹرکچر میں ایک سابقہ فوجی جنرل کو بھی شامل کیا جائے گا۔ کمانڈ کا کام دیہی علاقوں میں کسی بھی قسم کی بغاوت یا مزاحمت کے ساتھ ابتدائی مرحلے میں ہی سختی سے نمٹنا ہوگا۔ بعض سکیورٹی ماہرین کی رائے میں یونیفائیڈ کمانڈ سسٹم سے ماوٴ نواز باغیوں کے خلاف بہتر طریقے سے کارروائی کی جا سکے گی۔
لیکن بیشتر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ماوٴ نوازوں کی مسلح تحریک کو کچلنا اتنا آسان نہیں ہوگا، جتنا سمجھا جا رہا ہے۔ بعض سکیورٹی ماہرین کہتے ہیں کہ ’حسن افروز‘ اقدامات سے ماوٴ نوازوں کے خلاف جنگ جیتنا ممکن نہیں ہے۔
نئی دہلی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ مینیجمنٹ سے وابستہ اجے ساہنی اس حوالے سے کہتے ہیں: ’’جن ’حسن افروز‘ اقدامات کی باتیں یہ لوگ کر رہے ہیں، ان سے ہماری فورسز کی صلاحیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ ابھی تک یہ واضح طور پر بتایا ہی نہیں جا رہا کہ مسلح باغیوں کے گڑھ میں ان کے خلاف کارروائی کیسے کی جائے گی۔‘‘
بھارتی وزیر اعظم ماوٴ نوازوں کو ملک کے لئے سب سے بڑا سکیورٹی چیلنج قرار دے چکے ہیں۔ ماوٴ نواز تحریک سے وابستہ کارکن بھارت کے تقریباً ایک تہائی حصے میں موجود ہیں۔ نیم فوجی عملے سی آر پی ایف کے خلاف ماوٴ نوازوں کی ایک حالیہ کارروائی میں 76 سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔
بھارتی دفاعی تجزیہ نگار راُہل بیدی کے مطابق نکسلیوں کے خلاف بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے متاثرہ اور پسماندہ علاقوں میں ترقی بہت ضروری ہے۔ بیدی کہتے ہیں کہ مقامی پولیس اور نیم فوجی دستوں کو مزید مضبوط بنانے، انہیں جدید ہتھیاروں کی فراہمی اور بہتر تربیت فراہم کرنا بھی بہت اہم ہے۔ بیدی مزید کہتے ہیں کہ مسئلے کے حل کے لئے بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا ہوگا۔ ’’اس وقت ماوٴ نواز باغی بھارت کی 28 ریاستوں میں سے تقریباً بیس میں موجود ہیں۔ 625 اضلاع میں سے 250 میں نکسل باغی سرگرم ہیں جبکہ تقریباً 100میں انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ ان اضلاع میں ماوٴنوازوں ہی کی رٹ قائم ہے۔‘‘
بھارت میں ماوٴ نواز باغیوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین گزشتہ بیس برسوں سے جاری لڑائی میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی
ادارت: مقبول ملک