بھارت میں مسلم تنظیم پی ایف آئی کے خلاف ملک گیر چھاپے
22 ستمبر 2022حکام کے مطابق بھارت میں ’یہ آج تک کی سب سے بڑی تفتیشی کارروائی‘ ہے۔ چھاپے مارنے کی کارروائی بدھ کو آدھی رات کے بعد شروع ہوئی۔
قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) کی قیادت میں دس سے زائد ریاستوں میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے دفاتر پر ایک ساتھ چھاپے ما رے گئے۔ چھاپے مارنے کی اس کارروائی میں ریاستی تفتیشی ایجنسیوں نے بھی حصہ لیا۔ جمعرات کی صبح تک پی ایف آئی کے تقریباً 100رہنماؤں کو گرفتارکیا جا چکا تھا۔
یہ چھاپے پی ایف آئی کے مبینہ طور پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مارے گئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق چھاپے مارنے میں این آئی اے کے علاوہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور ریاستی پولیس فورسز بھی شامل تھیں۔ جن ریاستوں میں چھاپے مارے گئے، ان میں کیرالا، تامل ناڈو، کرناٹک، آندھرا پردیش، تلنگانہ، بہار، اتر پردیش، راجستھان، آسام، مدھیہ پردیش، پانڈو چیری اور قومی دارالحکومت دہلی شامل ہیں۔
بھارت: شدت پسند ہندو تنظیموں کواب مسلم پھل فروشوں سے پریشانی
بھارت: مسلمانوں کی گرفتاری پر سوالیہ نشان
این آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایف آئی کے دفاتر اور اس سے وابستہ افراد کے گھروں پر دہشت گردی کی فنڈنگ میں ملوث ہونے، تربیتی کیمپوں کا انعقاد کرنے اور ممنوعہ تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کرنے کے الزامات کے تحت تلاشیاں لی گئیں اور انہیں گرفتار کیا گیا۔
پی ایف آئی کا بیان
پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے ان چھاپوں کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ’فسطائی حکومت‘ کی طرف سے زیادتیوں کی تازہ ترین مثال ہیں۔
فرنٹ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ’’پی ایف آئی کے قومی، ریاستی اور مقامی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ ریاستی کمیٹی کے دفتر پر بھی چھاپے مارے گئے۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا، ’’ہم فسطائی حکومت کے اس اقدام کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہیں جو وہ حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے ایجنسیوں کا استعمال کر کے کر رہی ہے۔‘‘
پی ایف آئی ہے کیا؟
پی ایف آئی خود کو ایک ایسی تنظیم قرار دیتی ہے، جو ’’بالخصوص ملک کے محروم اور پسماندہ طبقات اور تمام شہریوں کی سماجی اور اقتصادی ترقی اور ان کو ثقافتی اور سیاسی طور پر با اختیار بنانے کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘
پاپولر فرنٹ آف انڈیا کا قیام سن 2007 میں جنوبی بھارت کی تین مسلم تنظیموں کے انضمام کے ساتھ عمل میں آیا تھا۔ اس کا صدر دفتر نئی دہلی میں ہے۔ پی ایف آئی کا ایک خواتین ونگ اور ایک طلبہ ونگ بھی ہے۔
کیرالا اور کرناٹک میں پی ایف آئی کے کارکنوں اور آر ایس ایس کے کارکنوں کے درمیان پرتشدد تصادم کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔
بھارت: ’لوجہاد‘ کا ثبوت نہیں مگر اس کے خلاف قانون سازی کا منصوبہ
’لو جہاد‘ کا کوئی ثبوت نہیں، بھارتی قومی تفتیشی ایجنسی
'یوپی اس وقت نفرت اور تعصب کی سیاست کا مرکز ہے'
سن 2012 میں کیرالا کی ریاستی حکومت نے پی ایف آئی کو ممنوعہ طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کی ’تبدیل شدہ شکل‘ قرار دیا تھا تاہم ریاستی ہائی کورٹ نے اس حکومتی موقف کو مسترد کر دیا تھا۔
بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تنظیم پر پابندی میں توسیع
نئی دہلی فسادات ميں مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنايا گيا، بھارتی کميشن کی رپورٹ
حکومت پی ایف آئی کے خلاف مبینہ طور پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک گیر مظاہروں کو ہوا دینے اور فروری 2020 میں دہلی کے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے سے متعلق الزامات کی بھی تفتیش کر رہی ہے۔ پی ایف آئی نے تاہم بارہا ان الزامات کی تردید کی ہے۔
جاوید اختر