بھارت میں منشیات کی لعنت پر اقوام متحد ہ کی رپورٹ
19 فروری 2009اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں نوجوان نسل بڑے پیمانے پر منشیات کی لعنت کا شکار ہورہی ہے اور اس پر قابو پانے کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا اور بالخصوص بھارت میں چرس اور ہیروئین جیسی منشیات کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس کے کاروبار میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔ منشیات کے اسمگلر غیرقانونی تجارت کے لئے نت نئے راستے تلاش کررہے ہیں اور پچھلے برسوں میں مالدیپ بھی ایک نئے روٹ کے طورپر ابھرا ہے۔
یواین اوڈی سی کی نمائندہ آشیتا متل نے اس رپورٹ کے اہم نکات کا ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ ’’ جنوبی ایشیا میں ہیروئین،گانجہ، چرس اور pharmaceutical preparations کافی مقدار میں موجود ہیں ان کا استعمال بھی ہورہا ہے اور نوجوان نسل ان کا استعمال کررہی ہے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جنوبی ایشا میں pharmaceutical abuse کافی بڑھ رہا ہے ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بھارت سے جو منشیات آس پاس کے ملکوں میں اسمگل کی جارہی ہے ان پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کے کسٹم اور انسداد اسمگلنگ بورڈ کے رکن جے کے بترا نے رپورٹ کا اجراء کرتے ہوئے کہا کہ منشیات ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اس پر کنٹرول کرنا پوری دنیا کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کی تیاری اور سپلائی بڑے ہی منظم انداز میں کی جاتی ہے اور منشیات کے اسمگلر نت نئے طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تردیدکی کہ پاکستان میں منشیات کے اسمگلروں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جس طرح ہم (اس لعنت) سے متاثر ہیں اسی طرح پاکستان بھی متاثر ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ پاکستان اس کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان منشیات کی غیرقانونی تجارت کرنے والوں سے ٹیکس کے طور پر سالانہ 200 تا 300 ملین ڈالر کمارہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افیم کی کاشت میں بہر حال 19 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ 2007میں جہاں93 1.لاکھ ہیکٹر میں افیم کی کاشت ہوئی تھی وہیں پچھلے سال 1.57 لاکھ ہیکٹر میں افیم کی کاشت ہوئی۔ رپورٹ میں افغانستا ن میں منشیات کے غیرقانونی کاروبار پر روک لگانے میں ناکامی کی سب سے بڑی وجہ سیکورٹی کی صورت حال کو قرار د یا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں چرس اور گانجہ جیسے منشیات کی غیرقانونی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ 2007میں انسداد منشےات حکام نے 284 ہیکٹر پر پھیلے ہوئے گانجہ کے کھیتوں کو تباہ کیا تھاجب کہ گذشتہ تین برسوں میں اوسطا 150 ٹن چرس سالانہ ضبط کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ضبط کی گئی چرس کے 40 تا 50 فیصد کا تعلق نیپال سے تھا جو چرس کی اسمگلنگ کا ایک نیا مرکز بن گیا ہے۔ انسداد منشیات بورڈ کے رکن جے کے بترا نے حالانکہ تسلیم کیا کہ منشیات کی غیرقانونی تجارت پر قابو پانا انتہائی مشکل ہے لیکن دعوی کیا کہ بھارتی ایجنسیاں اس سلسلے میں قابل تعریف کام کررہی ہیں۔ بترا نے کہاکہ ’’یہ چوہے بلی کا کھیل ہے، اسمگلر اور ڈرگس ڈیلر اپنا کام کررہے ہیں اور انفورسمنٹ ایجنسیاں ان کے پیچھے لگی ہیں۔ کبھی ہماری جیت ہوتی ہے کبھی ان کی جیت ہوتی ہے لیکن اس وقت صورت حال بہت حد تک ہمارے کنٹرول میں ہے اور بھارت کے بار ے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ منشیات کے مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔‘‘
یو این او ڈی سی کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے بیشتر ملکوں نے منشیات کے غیر قانونی کاروبار اور اس کے مختلف پہلووں پر ابھی تک کوئی جامع سروے نہیں کیا ہے۔ بھارت سرکار اس سلسلے میں ایک سروے کی تیاری کررہی ہے، شاید اس کے بعد اس لعنت کی صحیح تصویر ابھر کر سامنے آسکے گی۔ اقوام متحدہ کی نمائندے آشیتا متل نے کہا کہ منشیات کی اس لعنت پرمشترکہ کارروائیوں کے ذریعہ ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرگس انفورسمنٹ ایجنسی، ٹریٹمنٹ ایجنسی اور ایچ آئی وی سیکٹر ان تینوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے بین علاقائی تعاون کی بڑی ضرورت ہے کیوں کہ منشیات سے صرف ایک ملک ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس سے متعدد ممالک متاثر ہوتے ہیں اس لئے اس لعنت پر قابو پانے کےلئے تمام ملکوں کے درمیان تعاون ضروری ہے۔