بھارت میں نیا ملکی بجٹ پیش کر دیا گیا
26 فروری 2010پرنب مکھرجی نے پارلیمان میں بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت کو رواں مالی سال میں بیرونی ملکوں سے 159 بلین روپے قرض اور مالی امداد کے طور پر ملے جب کہ آئندہ مالی سال میں ان رقوم کے بڑھ کر 278 بلین روپے ہو جانے کی امید ہے۔ دفاع کی مد میں ایک ہزار 473 بلین روپے خرچ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
انہوں نے اس موقع پر بیرونی ملکوں سے ملنے والی امداد اور قرضوں کی تفصیلات بھی بتائیں۔ مکھرجی نے بتایا کہ بھارت ترقی یافتہ ریاستوں کے گروپ جی آٹھ کے تمام ملکوں کے علاوہ یورپی کمیشن اور مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھی قرضے اور مالی امداد حاصل کرتا ہے۔ رواں مالی سال میں بھارت کو جرمنی سے تقریبا دو بلین روپے ملے۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ بھارت پر بیرونی ملکوں کا 1395 بلین روپے کا قرض ہے جو اگلے مالی سال میں بڑھ کر 1642 بلین روپے ہو جانے کی توقع ہے۔ دوسری طرف بیرونی ملکوں پر بھارت کا 37 بلین روپے کا قرض ہے۔ بھارتی وزیر خزانہ نے کہا کہ بھارت زبردست اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس وقت ترقی کی شرح 8.5 فیصد ہے جو اگلے مالی سال میں بڑھ کر 9 فیصد ہو جانے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ بھارت نے ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں اپنے ہاں افراط زر کی شرح بھی قابو میں رکھی ہوئی ہے۔ لیکن اس خوشنما تصویر کے باوجود بھارت کو آخر بیرونی امداد کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ جب ڈوئچے ویلے کی طرف سے یہ سوال بھارت میں جرمن سفیر تھامس مٹوسک سے پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا: ”اب بہت واضح تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ ہم اس مرحلے سے باہر نکل چکے ہیں جہاں بھارت کو مدد کی ضرورت تھی۔ دراصل بھارت اور ہمیں دونوں ہی کو ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جرمن اور بھارتی معیشتیں ایک دوسرے کی معاون اور مدد گار ہیں۔
پرنب مکھرجی نے کہا کہ جرمنی 1958 سے ہی بھارت کو مالی اور تکنیکی تعاون دے رہا ہے۔ جو آسان قرض، کم شرح سود والے قرض اور ترقیاتی قرضوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مالی امداد جرمنی کے سرکاری بینک KfW اور تکنیکی تعاون کے سرکاری جرمن ادارے GTZ کے ذریعہ ملتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی توانائی، ماحولیات، دیہی علاقوں میں پانی کی فراہمی کے پروگرام اور ریلوے سگنلنگ پروگرام کے علاوہ پولیو پروگرام وغیرہ میں بھی بھارت کی مدد کر رہا ہے۔
جرمن سفیر تھامس مٹوسک نے کہا کہ جرمنی بھارت سے متعدد شعبوں میں تعاون کر سکتا ہے اور جرمنی بالخصوص پیشہ ورانہ تربیت کے شعبے میں اپنی مہارت سے بھی نئی دہلی کی مدد کرسکتا ہے۔ ’’پھر صحت کا شعبہ بھی ہے اور جرمنی پورے ملک میں اس میں مدد کرسکتا ہے۔ متبادل توانائی کا بھی شعبہ ہے اور پانی کے بہتر استعمال کی تکنیک سمیت دیگر بہت سارے شعبے ہیں جن میں ہم پارٹنر کی حیثیت سے بھارت کی مدد کرسکتے ہیں۔‘‘
بھارت کو تکنیکی امداد فراہم کرنے والے جرمن ادارے GTZ کے عالمی امو ر کے چیف ایگزیکٹو افسر ارنسٹ لکٹنگرن نے بھی ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اب اس پوزیشن میں آ گیا ہے کہ اسے مالی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ GTZ کے تعاون کو پیسوں میں تولا جانا چاہئے۔ اس ادارے کا اصل تعاون تکنیکی مہارت میں دوسروں کو شریک کرنے کے بارے میں ہے۔ بھارت کو چند یورو کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل ہم سب کو بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے اور GTZ بھی یہی کررہا ہے۔‘‘
نئی دہلی میں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ چونکہ بھارت کے دیہی علاقوں کا بیشترحصہ ابھی بھی غربت کاشکار ہے، اس لئےبیرونی معاونت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق بھارت میں 456 ملین افراد خط افلاس سے نیچے رہتے ہیں اور ان کی یومیہ آمدنی صرف ایک امریکی ڈالر کے قریب ہوتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے اقتصادی ترقی تو ضرور کی ہے، اور وہ چاند پر کمندیں ڈالنے کی تیاریاں بھی کر رہا ہے، لیکن یہ ترقی غیرمتوازن ہے اور ملک کے بہت سے علاقے اس ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں۔
رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی
ادارت: مقبول ملک