بھارت میں پینٹنگز کی جعلسازی عروج پر
20 جنوری 2011بھارتی دارالحکومت میں جمعرات سے ’انڈین آرٹ سمٹ‘ شروع ہو گئی ہے، جہاں فن پاروں کو اپنے گھرکی زینت بنانے والوں کا ہجوم امڈ آیا ہے اور ہر جگہ فن کے شیدائی دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم بہت سے ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں، جن میں فن کے چاہنے والوں کو ان کے من پسند مصور کے نقلی شاہکار فروخت کر دیے جاتے ہیں۔
57 سالہ ارپنا کاؤرایک مصورہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں ان کا نئی دہلی کی آرٹ گیلری میں جانا ہوا۔ وہاں انہوں نے اپنی بنائی ہوئی کچھ پینٹنگز دیکھیں۔ یہ تصاویرسکھ مذہب کے بانی گرو نانک کی زندگی پر بنائی جانے والی ایک سیریز کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد کاؤر نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ یہ تصاویر اس آرٹ گیلری میں کس طرح پہنچیں؟ تحقیقات سے معلوم ہوا کاؤر کا ایک پرانا شاگرد اس کھیل میں ملوث ہے۔ وہ آرٹ اسکول کے طلبہ کو مشہور تصاویر کی نقول تیار کرنے کا کہتا ہے، جس کے بعد انہیں فروخت کردیا جاتا ہے۔
ارپنا کاؤر نے اس واقعے کی پولیس میں رپورٹ درج کرائی، جس کے بعد اسے گرفتار کرلیا گیا اور سینکڑوں فن پارے بطور ثبوت ضبط کر لیے گئے۔ ان کی مالیت 40 ہزار یور سے زیادہ بنتی ہے۔ اس پرکاؤر نےکہا کہ صرف تصویر کی ہی نقل تیار نہیں کی گئی بلکہ ان کے دستخط اور تصویر کے اصلی ہونے کی سند بھی موجود تھی۔ ارپنا کاؤر نے کہا کہ دنیا بھر میں پینٹنگز کے جعلساز موجود ہیں لیکن بھارت میں یہ ناسور اتنا پھیل گیا ہے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ارپنا کاؤر وہ واحد آرٹسٹ نہیں ہیں، جن کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ بلکہ جنوبی ایشیا کے پکاسو کہلانے والے ایم ایف حسین، ایس ایچ رضا اور ستیش گجرال سمیت کئی نامور بھارتی مصوروں کے فن پاروں کی نقول فروخت کی جا رہی ہیں۔
اس مرتبہ ’انڈین آرٹ سمٹ‘ میں کوئی 5 سو کے قریب مصوروں کے شاہکار پیش کیے جائیں گے۔ گزشتہ سال یہ میلہ 2009ء میں سجایا گیا تھا اوراس دوران پانچ اعشاریہ تین ملین یورو مالیت کی تصاویر فروخت ہوئی تھیں۔
جتن گاندھی بھارت میں فن کی تاریخ پر نظر رکھنے والی شخصیت ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں کوئی ایک ہزار گیلریز ایسی ہیں، جہاں پر یہ کاروبارہو رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ممبئی، نئی دہلی، بنگلور، اور حیدرآباد میں ہیں۔ ان کے بقول ایسی آرٹ گیلیریز کے مالکان چاہتے ہیں کہ ان کے پاس مشہور و معروف فنکاروں کے فن پارے ہوں، جن سے ان کی گیلری کی وُقت میں اضافہ ہو۔ اس دوران ان کو یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ وہ اس طرح فن اور فنکاروں کوکس قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ گاندھی کے بقول جعلی فن پارے بھی بڑی قیمت میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ پھر اکثر ان کو خریدنے والا اسے آگے کسی دوسرے کو فروخت کر دیتا ہے اور جب تک اس کے جعلی ہونے کی تصدیق ہو تی ہے تو یہ کہیں دور پہنچ چکا ہوتا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: امتیاز احمد