گجرات میں فسادات کی بیسویں برسی، برطانوی پارلیمان میں بحث
10 فروری 2022برطانوی پارلیمان میں گزشتہ شب بھارتی ریاست گجرات کے مسلم مخالف فسادات کے بیس برس مکمل ہونے پر بحث ہوئی اور ان فسادات میں ہلاک ہونے والے تین برطانوی شہریوں کی جسمانی باقیات کو برطانیہ میں ان کے لواحقین کو واپس کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔
فروری 2002ء میں گجرات میں گودھرا کے شہر میں ہندو کار سیوکوں سے بھرے ایک ٹرین کے ڈبے میں آتش زدگی کے بعد بڑے پیمانے پر مسلم مخالف فسادات بھڑک اٹھے تھے، جس میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباﹰ ایک ہزار افراد قتل کر دیے گئے تھے۔
ہلاک شدگان میں سے بیشتر مسلمان تھے اور بعض غیر سرکاری جائزوں کے مطابق ان فسادات میں تقریباﹰ دو ہزار مسلمانوں کو ہلاک کیا گيا تھا۔ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی اس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور کئی حلقوں کی جانب سے ان فسادات کو ’دانستہ طور پر قابو میں نہ لانے‘ پر مودی پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
بحث میں کیا کہا گيا؟
گجرات میں فسادات کے بیس برس مکمل ہونے پر ان واقعات کی یاد میں لیبر پارٹی کی رکن پارلیمان کم لیڈ بیٹر نے دارالعوام میں بحث کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر ان فسادات میں ہلاک ہونے والے برطانوی شہریوں کی جسمانی باقیات کی واپسی کا مطابہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ برطانیہ کو بھی اس امر کی تفتیش کرنا چاہیے کہ آخر ان ہلاکتوں کے اسباب کیا تھے۔
انہوں نے کہا کہ اب متاثرین کو تو واپس نہیں لایا جا سکتا تاہم ان کے اہل خانہ کی تسلی کے لیے ان کی کچھ مدد ضرور کی جا سکتی ہے، ’’ان افراد کے اہل خانہ کو اس بات پر بہت تکلیف ہوئی ہے کہ ان تین برطانوی نوجوانوں کی باقیات کو واپس لانے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔‘‘
کم لیڈ بیٹر کا مزید کہنا تھا، ’’میں متعلقہ وزیر سے کہتی ہوں کہ وہ بھارتی حکام سے پتا کریں کہ آیا ان تینوں شہریوں کی باقیات کی وطن واپسی ممکن ہے؟ اگر ایسا ہے، تو عملی طور پر یہ کام جلد از جلد کیا جانا چاہیے۔‘‘
بحث میں حصہ لینے والے ارکان پارلیمان نے یہ سوال بھی کیا کہ آیا برطانیہ میں ان ہلاکتوں سے متعلق کوئی تفتیش ممکن ہے؟ اس ضمن میں انہوں نے برطانوی حکومت سے سوال پوچھتے ہوئے ایک درخواست بھی جمع کرائی۔
برطانوی حکومت کا مدد کا وعدہ
لیڈ بیٹر کے خطاب کے بعد امور خارجہ کی وزیر امانڈا ملنگ نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’ہم نے 2002ء کے ان فسادات کے برطانوی متاثرین کے خاندانوں کی مشاورتی مدد کی اور ہم ضرورت کے مطابق مستقبل میں بھی ایسا کرتے رہیں گے۔ میں محسوس کر سکتی ہوں کہ متاثرہ خاندانوں کو اپنے پیاروں کی جسمانی باقیات بھی نہ ملنے پر کس طرح کے احساسات کا سامنا ہو گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ہمیں متاثرہ خاندانوں کے قانونی نمائندے کی جانب سے بتایا گيا ہے کہ جسمانی باقیات کی واپسی کے لیے ایک بھارتی عدالت میں درخواست دی گئی ہے اور جب اس درخواست کی باقاعدہ سماعت ہو گی، تو ہم اس درخواست کی تائید کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘
امانڈا ملنگ نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں اقلیتوں کا تحفظ اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق، ’’برطانیہ اور بھارت کے درمیان گہرا تعلق ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ سن 2002ء میں گجرات میں تشدد کے واقعات انتہائی سنگین اور افسوسناک تھے۔ یہ معاملہ ہمیں مذہبی برادریوں کے مابین احترام اور ہم آہنگی کے لیے مسلسل کام کرتے رہنے کی ضرورت کی یاد دہانی کراتا ہے۔‘‘
بھارتی رد عمل
لندن میں بھارتی ہائی کمیشن نے کہا ہے کہ بیس برس قبل بھارت میں پیش آنے والے المناک واقعات پر برطانوی پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کا اس نے نوٹس لیا ہے۔ تاہم کمیشن نے کہا کہ برطانوی ہلاک شدگان کی جسمانی باقیات کی واپسی کے لیے متاثرین کے لواحقین نے ابھی تک ہائی کمیشن سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
بھارتی ہائی کمیشن میں سیاسی امور کے سیکرٹری وشویش نیگی کا کہنا ہے، ’’بھارتی ہائی کمیشن یہ بتانا چاہتا ہے کہ آج کی بحث میں اس تحریک کو اسپانسر کرنے والی رکن پارلیمنٹ یا شرکاء میں سے، بشمول متاثرہ خاندانوں کے، کسی کی جانب سے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔‘‘
ہوا کیا تھا؟
اٹھائیس فروری 2002ء کو چار برطانوی سیاح جب تاج محل دیکھنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے، تو وہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا تھا۔ ان میں شکیل اور سعید داؤد، ان کا 18 سالہ بھتیجا عمران اور ان کا بچپن کا دوست محمد اصوت شامل تھے۔
ریاست گجرات میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ان کی جیپ کو ایک سڑک پر روکا گیا تھا۔ ایک ہجوم نے ان کی گاڑی کو گھیر لیا اور ان سے پوچھا گيا تھا کہ ان کا مذہب کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور برطانوی شہری بھی، جو چھٹیاں گزارنے بھارت آئے تھے۔
اس کے بعد مشتعل ہجوم نے ان افراد پر تشدد کیا اور شکیل، سعید، محمد اور ان کا ڈرائیور سبھی موقع پر ہی قتل کر دیے گئے تھے۔ اس واقعے میں عمران داؤد معجزانہ طور پر بچ گئے تھے اور آج وہی اس کیس کے عینی گواہ بھی ہیں۔ انہی سے یہ پتا بھی چلا تھا کہ کیسے ہلاک شدگان نے اپنی جانیں بچانے کے لیے منتیں کی تھیں مگر ہندوؤں کے مشتعل ہجوم نے ان کی ایک نہ سنی تھی۔
(نیوز ایجنسیاں)