1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت نے دیسی ساخت کی پہلی نیوکلیائی آبدو ز سمندر میں اتاردی

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی، ادارت: شامل شمس26 جولائی 2009

بھارت نے اتوار کے روز خطے میں دفاعی سپر پاور کی حیثیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی نیوکلیائی آبدوز سمندر میں اتار دی جس کے ساتھ ہی وہ دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا۔

https://p.dw.com/p/IxnC
یہ آبدوز روسی ماڈل پر بنائی گئی ہے او راس میں روسی تعاون شامل رہا ہے۔ (تصویر میں روسی آبدوز سمندر کے بیچوں بیچ) کھڑی ہےتصویر: AP

کرگل جنگ کے بعد بھارت کے دفاعی نظام میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔اس نے اپنی دفاع کو جدید بنانے کے لئے ہتھیاروں کی خریداری پر خاصی رقم مختص کی ہے

INS Arihant
بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ آبدوز کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئےتصویر: AP



بھارت میں اتوار کے روز جہاں پورے ملک مےں کرگل جنگ میں فتح کی دسویں سالگرہ منائی گئی وہیں خطے میں دفاعی سپر پاور کی حیثیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے دیسی ساخت کی پہلی نیوکلیائی آبدوز سمندر میں اتار دی جس کے ساتھ ہی وہ دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا۔

کرگل جنگ کے بعد بھارت کے دفاعی نظام میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔اس نے اپنی دفاع کو جدید بنانے کے لئے ہتھیاروں کی خریداری پر خاصی رقم مختص کی ہے۔ دفاعی نظام کی جدیدکاری کے اسی سلسلے کے تحت اس نے جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے وشاکھاپٹنم بندرگاہ پر دیسی ساخت کی پہلا نیوکلیائی آبدوز سمندر میں اتاردی جس کے ساتھ ہی بھارت کا نیوکلیائی کمانڈ اور کنٹرول سسٹم مکمل ہوگیا اور اسے بری‘ بحری اور فضائیہ کے ساتھ ساتھ سمندر کے اندر بھی میزائیلوں کے استعمال کی صلاحیت حاصل ہوگئی۔

Paris Indische Militärparade
بھارت کا موقف رہا ہے کہ اس کی دفاعی ضروریات چین کے خطرے کے پیشِ نظر ہیںتصویر: AP



اریہنٹ نامی اس آبدوز کو وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی اہلیہ گرشرن کور نے روایتی طور پر سمندر میں اتارا۔ اس آبدوز کی تیاری کا منصوبہ 1984میں تیار کیا گیا تھا اور 1998 میں اس پر کام شروع ہوا۔ 10 میٹر لمبی اور 11میٹر چوڑی یہ آبدوزتقریباً دو برس تک تجرباتی مراحل سے گذرے گی اور اسے 2011 میں باضابطہ طور پر بھارتی بحریہ میں شامل کیا جائے گا۔ ایٹمی ری ایکٹر سے چلنے والی اس آبدوز کی رفتار 55 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ یہ بڑی تیزی سے سمندر کی اوپری سطح سے گہرے پانی میں جاسکتی ہے اور 100 میٹر کی گہرائی سے میزائل فائر کر سکتی ہے۔ یہ سو سے زیادہ دنوں تک مسلسل پانی کے اندر رہ سکتی ہے اور اسے پیغام رسانی کے لئے پانی کی سطح پر نہیں آنا پڑے گا ۔ اس پر 80 میگاواٹ کا نیوکلیائی ری ایکٹر لگا ہوا ہے۔ نیوکلیائی میزائیلوں سے لیس یہ آبدوز اپنے دشمن پر نشانہ لگانے کی جدید تکنالوجی سے آراستہ ہے۔

نیوکلیائی آبدوز کے پروجیکٹ کو اتنا خفیہ رکھا گیا تھا کہ جب بحریہ کے سربراہ ایڈمیرل وشنو بھگت نے 1998 میں اس کا انکشاف کیا تو انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔اریہنٹ کے ساتھ ہی بھارت‘ امریکہ‘ روس‘ برطانیہ‘ چین اور فرانس کے ساتھ ان پانچ ملکوں کی صف میں شامل ہوگیا جن کے پاس نیوکلیائی آبدوز ہیں۔ اریہنٹ آبدوز روس کی چارلی ون آبدوز کی ساخت پر بنائی گئی ہے اور یہ نیوکلیائی میزائل سے حملے کرنے اور جوابی حملے کرنے کے زمرے میں آتی ہے۔ اس ساخت کی آبدوزوں کا پتہ لگانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح کی دو مزید آبدوزیں 2015تک بن کر تیار ہوجائیں گی۔

Indischer Soldat mit Bofor Waffe
کرگل جنگ کے بعد بھارت کے دفاعی نظام میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔اس نے اپنی دفاع کو جدید بنانے کے لئے ہتھیاروں کی خریداری پر خاصی رقم مختص کی ہےتصویر: AP

اریہنٹ آبدوز کی تیاری کا کام گو کہ 1998 میں شروع ہوگیا تھا لیکن اس میں تیزی کرگل جنگ کے بعدآئی۔ اسی لئے آج کرگل جنگ کی دسویں سالگرہ کے موقع پر سمندر میں اتارا گیا۔ کرگل جنگ کے بعدحالانکہ دفاعی شعبے میں کئی اصلاحات کی گئیں اور اسلحوں کی خریداری پر اربوں روپے خرچ کئے گئے وہیں دوسری طرف اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کا فوج کی طرف رجحان کم ہوتا گیا اور اس وقت تینوں افواج میں تقریباً پندرہ ہزار افسران کی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ریٹائرڈ میجر جنرل اشوک مہتہ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے اہمیت کی بات ہے عزت اور اقبال کی جو کہ اب بالکل نہیں دی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی تازہ مثال کرگل ہےجہاں فتح کی آج دسویں سالگرہ کے موقع پر کوئی بھی سیاسی لیڈر نہیں پہنچا۔ اس سے قبل فیلڈ مارشل مانک شاہ کے آخری رسومات میں بھی کسی اہم سیاسی رہنما نے شرکت کی زحمت نہیں کی تھی۔

تاہم کرگل جنگ میں فضائیہ کی کمان کرنے والے ریٹائرڈ ایروائس مارشل ونود پٹنی کا کہنا ہے کہ یہ حال تمام ترقی یافتہ ملکوں کا ہے جہاں پر اعلی تعلیم یافتہ نوجوان کارپوریٹ سکیٹر کو اپنی پہلی ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے مطابق امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس جیسے ترقی یافتہ اور اقتصادی لحاظ سے خوشحال ممالک بھی اس طرح کی پریشانی سے دوچار ہیں۔

بہر حال آج پورے ملک میں کرگل کی کامیابی کا جشن منایا گیا۔ ریاستی صدر مقامات اور چھاونیو ں میں خصوصی تقاریب ہوئیں۔ اس سلسلے میں ایک تقریباً یہاں تاریخی انڈیا گیٹ پر بھی ہوئی جس میں وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھی شرکت کی۔