’بھارت پرامن مظاہروں کا احترام کرے‘ امریکا
17 دسمبر 2019بھارت ميں شہریت سے متعلق نئے قانون کے خلاف ملک گیر سطح پر مظاہرے ہو رہے ہیں، جس پر قابو پانے کے لیے پولیس نے طاقت کا زبردست استعمال کیا ہے۔ اس میں اب تک پانچ افراد کے ہلاک اور سینکڑوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا،’’شہریت ترمیمی بل سے متعلق ہونے والی تمام پیش رفت پر ہماری گہری نظر ہے۔ ہم زور دیتے ہیں کہ حکام پر امن مظاہروں کو تحفظ فراہم کریں اور اس کا احترام کریں۔ ہم مظاہرین سے بھی تشدد سے گریز کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔‘‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا،’’مذہبی آزادی کا احترام اور قانون کی نظر میں سب کا مساوی ہونا دونوں جمہوریتوں کے بنیادی اصول ہیں۔ امریکا بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے آئین اور جمہوری اقدار کے پاسداری کرتے ہوئے اپنی مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔‘‘
بھارتی شہریت کے لیے وضع ہونے والے نئے قانون پر امریکا نے گزشتہ ہفتے بھی اسی طرح کے ایک بیان میں تمام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کہی تھی۔ لیکن مذہبی آزادی سے متعلق امریکی ادارے 'یو ایس کمیشن فار انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم' (يو ایس سی آئی آر ایف) نے شہریت ترمیمی بل پر اپنےگہرے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ بل پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں منظور کر لیا جاتا ہے، تو امریکی حکومت کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر اہم قیادت پر پابندی عائد کرنے پر غور کرنا چاہیے۔
بھارت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون وضع کیا ہے اس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کرنے والے ہندو، جین، بدھ، سکھ، عیسائی اور پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے خلاف مختلف یونیورسٹیز اور ریاستوں میں پر تشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔
اتوار کے روز دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ کے احتجاجی مظاہرے پر پولیس تشدد کے رد عمل میں بہت سی یونیورسٹیز اور اداروں نے جامعہ کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ امریکا کی معروف یونیورسٹی ہارورڈ کے طلبہ نے بھی جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹیز کے طلبہ کی حمایت میں ایک خط تحریر کیا ہے جس میں احتجاج اور اختلاف کو جمہوریت کا اہم ستون بتایا گيا ہے۔
ہارورڈ کے طلبہ کے خط میں تحریر ہے،’’احتجاجی مظاہروں سے تکلیف تو ہوتی ہے اور روز مرہ زندگی میں خلل بھی پیدا ہوتا ہے لیکن یہی تو ہمارے ملک کی سیکولر اور جمہوری انداز کو برقرار رکھتے ہیں۔‘‘ اس خط میں طلبہ کے خلاف لاٹھی چارج، یونیورسٹی کیمپس میں بغیر اجازت داخل ہوکر تشدد کرنے اور پھر انٹرنیٹ سروسز کو معطل کرنے جیسی کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
بالی وڈ اور ہالی وڈ کے اداکاروں نے بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے۔ ہدایت کار مہیش بھٹ، انوراگ کشیپ، انوبھو سنہا، اداکار آیوشمان کھرانہ، وکی کوشل، راج کمار راؤ، اداکارہ سورا بھاسکر، تاپسی پنّو، کوئنا مترا، سونی رازدان جیسی بالی وڈ کی نامور شخصیات نے جامعہ کے طلبہ کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے اور پولیس کی کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ہالی وڈ کے اداکار جان کاسژک نے بھی مظاہرین کی حمایت اور شہریت بل کے خلاف ایک ٹویٹ کیا۔ انہوں نے معروف مصنفہ اروندتی رائے کا ایک قول اپنی ٹویٹر وال پر پوسٹ کیا جو اس طرح تھا،’’ہمارے مسلمان بھائیوں، بہنوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور طلبہ کی حمایت میں جن پر مودی نے مظالم ڈھا رکھے ہیں۔‘‘
ز ص / ع ا (خبر رساں ادارے)