بھارت۔ چین مذاکرات: چینی جال سے نکلنے کی کوشش
5 جون 2020ذرائع کا کہنا ہے کہ گوکہ بھارت، چین کے ساتھ تنازعے کو حل کرانے میں کسی کی ثالثی کے خلاف ہے تاہم اگر تعطل برقرار رہا تو آنے والے دنوں میں نئی دہلی دیگر ملکوں کے ساتھ بھی اس مسئلے پر بات چیت کرسکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق بھارتی خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرینگلا نے نئی دہلی میں روسی سفیر نیکولائی کداشیف سے بات چیت کی اور انہیں بھارت اور چین کے درمیان واقع حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر موجودہ فوجی کشیدگی کی صورت حال کی تفصیلات بتائیں۔
اسٹریٹیجک امور سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ نریندر مودی حکومت اس پیچیدہ صورت حال سے کسی طرح نکلنا چاہتی ہے جس میں وہ پچھلے ایک ماہ سے الجھی ہوئی ہے۔ اسی اقدام کے تحت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اور اب بھارتی خارجہ سکریٹری نے روسی سفیر کے ساتھ تبادلہ خیال کیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیوں کہ 2017 کے ڈوکلام تنازعہ کے وقت جب بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان 70 سے زیادہ دنوں تک سرحد پر تعطل برقرا ررہا تھا، اس وقت بھی نئی دہلی نے کسی دوسرے ملک کے ساتھ اس تنازعہ پر بات چیت نہیں کی تھی۔
بھارت نے حالانکہ ابتدا میں صورت حال کو’معمول کے مطابق‘بتانے کی کوشش کی تھی تاہم اب اعلی فوجی رہنما بھی یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ایل اے سی پر سب کچھ خیریت سے نہیں ہے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی گزشتہ دنوں ایک نیوز چینل کے پروگرام میں تسلیم کیا کہ ’چینی فوجی اچھی خاصی تعداد میں حقیقی کنٹرول لائن پر موجود ہیں لیکن بھارت نے بھی اپنی طرف سے جو کچھ کرنا چاہیے کیا ہے۔‘
پچھلے 20 برس کے دوران یہ پہلا موقع ہے جب بھارت نے پہلی مرتبہ امریکی صدر کے ساتھ بھارت چین سرحد پر کشیدگی کی بات عوامی طور پر تسلیم کی۔ گوکہ نئی دہلی اور واشنگٹن ماضی میں بھی بھارت چین سرحد کے موضوع پر بات چیت کرتے رہے ہیں تاہم اس کے لیے ’علاقائی ترقی‘ یا ’علاقائی سلامتی کی صورتحال‘ جیسے سفارتی الفاظ کی آڑ لی جاتی تھی۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تنازعہ کو حل کرانے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تھی لیکن چین نے اسے براہ راست اور بھارت نے بالواسطہ طورپر مسترد کردیا ہے۔
ہفتہ چھ جون کو بھارت اور چین کے سرحدی علاقے چھوشول۔ مولڈو میں کمانڈروں کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں بھارت اس تنازعہ کے قابل قبول حل پر زور دے گا۔ ماہرین کے مطابق بھارت اس بات پر زور دے گا کہ’پہلی اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ایل اے سی پر موجودہ تنازعہ شروع ہونے کے پہلے کی صورتحال کو بحال کیا جائے۔‘
نئی دہلی کے جواہرلا ل نہرو یونیورسٹی میں اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے پروفیسر رنجن کمار کا کہنا تھا کہ موجودہ تعطل کے کئی اسباب ہیں۔ مثلاً چینی فوج نے پینگ یونگ سو علاقے میں بھارتی فوجیوں کی گشت روک دی ہے۔ پینگ یونگ سو اور گلوان وادی میں چین نے فوج کی تعداد میں اضافہ کردیا جس کے بعد بھارت نے بھی ان علاقوں میں اپنی فوجی نفری بڑھا دی۔ ایل اے سی پر تعمیرات کا معاملہ حالیہ تنازعہ کا ایک سبب ہے۔ اس کے علاوہ وقتا ً فوقتاً جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔” یہ امور دونوں فوجی کمانڈوں کی بات چیت میں نمایاں رہیں گے۔ گوکہ وقتاً فوقتاً جھڑپوں، ایک دوسرے کے علاقے میں دراندازی اور فوجیوں کے رویے کے معاملات فوجی کمانڈر بات چیت کے ذریعہ حل کرسکتے ہیں لیکن ایل اے سی کی بہتر تفہیم اور سرگرمیوں کی اجازت دینے کے سلسلے میں کوئی فیصلہ سیاسی اور سفارتی سطح پر ہی کیا جاسکتا ہے۔“
دریں اثنا کرگل جنگ کے دوران بھارتی فوج کی قیادت کرنے والے سابق آرمی چیف جنرل وی پی ملک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ حالیہ دنوں بھارت چین سرحد پر فوجیوں کے درمیان کشیدگی کے واقعات جتنی تیزی اور تسلسل کے ساتھ پیش آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالات پر قابو پانے کا موجودہ میکانزم موثر نہیں رہ گیا ہے۔ انہوں نے تاہم کہا ”خبروں کے مطابق بھارت اور چین اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیوں کہ دونوں میں سے کسی کو بھی صورت حال کو بگاڑنے میں دلچسپی نہیں ہے۔“