1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی، ملزمان ’انکاؤنٹر‘ میں ہلاک

6 دسمبر 2019

بھارتی شہر حیدرآباد میں جانوروں کی ایک نوجوان خاتون ڈاکٹر کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے قتل میں ملوث چاروں ملزمان کو آج جمعے کی صبح مقامی پولیس اہلکاروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

https://p.dw.com/p/3UIsG
Indien l Proteste gegen Vergewaltigungen
تصویر: picture alliance/NurPhoto/S. Pal Chaudhury

حیدرآباد کے نزدیک سائبر آباد کے ڈپٹی پولیس کمشنر این پرکاش ریڈی کا کہنا ہے کہ یہ چاروں ملزمان پولیس کی تحویل میں تھے اور اسی جگہ پولیس کی گولی کا شکار ہوئے، جہاں انہوں نے 27 سالہ خاتون ڈاکٹر کو زندہ جلا دیا تھا۔ انہوں نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا، ”صبح چھ ساڑھے چھ بجے ہمارے آدمی ملزمان کو واردات کے اصل مقام پر لے جا رہے تھے تاکہ اس واردات کی دوبارہ منظر کشی کی جا سکے اور یہ دیکھا جا سکے کہ انہوں نے کس طرح واردات سر انجام دی۔ لیکن ملزمان نے پولیس سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی۔ جوابی کارروائی میں چاروں ملزمان ہلاک ہو گئے جبکہ دو پولیس والے بھی زخمی ہوئے۔"

چاروں ملزمان کو 29 نومبر کو گرفتار کیاگیا تھا۔ ملزمان کی شناخت جی شیوا، جے نوین، سی چنا کیشولو اور محمد عارف کے طور پر ہوئی تھی۔ ان تمام ملزمان کی عدالتی تحویل میں گزشتہ روز ہی توسیع کی گئی تھی جس کے بعد پولیس نے فیصلہ کیا تھا کہ اس واردات کی دوبارہ منظر کشی کے ليے انہيں جائے وقوعہ پر لے جایا جائے۔ پولیس نے پہلے کہا تھا کہ یہ واقعہ صبح کے ساڑھے تین بجے پیش آیا تاہم بعد میں کہا گيا کہ یہ چھ ساڑھے چھ بجے پیش آیا۔ اس تضاد کے بارے میں پولیس نے فی الحال کوئی وضاحت نہیں پيش کی ہے۔

حیدرآباد کی خاتون ڈاکٹر کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی اور اسے زندہ جلا دینے کے واقعے کے خلاف گزشتہ ہفتے بھارت کے مختلف شہروں میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اس معاملے کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی۔

پولیس کی آج کی کارروائی پر متضاد رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ ایک حلقہ پولیس کی 'کارکردگی‘ کی تعریف کر رہا ہے لیکن دیگر حلقے پولیس کے طریقہ کار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اور بی جے پی کے رکن پارلیمان راجیہ وردھن سنگھ راٹھور نے ٹوئٹ کیا، ”میں حیدرآباد پولیس کو مبارک باد دیتا ہوں اور اس قیادت کو بھی، جس نے پولیس کو پولیس کی طرح کام کرنے کی اجازت دی۔ سب کو معلوم ہونا چاہيے کہ یہ وہ ملک ہے جہاں جھوٹ پر سچ کی ہمیشہ فتح ہوتی ہے۔"

کانگریس کے سینئر رہنما اورسابق وفاقی وزیر جیوترادتیہ سندھیا کا کہنا تھا، ”حیدرآباد میں درندوں کو اپنے گناہ کی سزا ملی۔ مہذب سماج میں ایسے گناہ گاروں کے ليے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہيے۔"

قومی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن ریکھا شرما نے کہا، ”انکاؤنٹر ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوتے۔ اس معاملے میں پولیس کے دعوے کے مطابق ملزمان بندوق چھین کر بھاگ رہے تھے۔ ایسے میں شايد ان کی کارروائی  ٹھیک تھی۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ ملزمان کو پھانسی کی سزا ملے لیکن قانونی عمل کے تحت۔ ہم چاہتے تھے کہ تیز رفتار انصاف ہو۔ پورے قانونی عمل کے تحت کارروائی ہونی چاہيے۔ آج لوگ انکاؤنٹر سے خوش ہیں لیکن ہمارا آئین ہے، قانونی عمل ہے۔"

دوسری طرف متعدد رہنماوں نے پولیس کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا، ”یہ تشویش کی بات ہے۔ عوام کا جس طرح انصاف کے نظام پر سے یقین اٹھتا جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے تمام حکومتوں کو مل کر سوچنا ہوگا اور کوئی قدم اٹھانا ہوگا کہ انصاف کے نظام کو کس طرح مستحکم کیا جائے۔"

سابق صدر پرنب مکھرجی کی بیٹی اور کانگریسی رہنما شرمشٹھا مکھرجی نے اس انکاونٹر پر سوالات کھڑے کيے اور تفتيش کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے کہا، ”کہیں پولیس نے عوام کے دباؤ کی وجہ سے تو انکاؤنٹر نہیں کیا؟ آخر ایسی کون سی نوبت آ گئی تھی کہ قانون ہاتھ میں لینا پڑا؟ ہو سکتا ہے کہ چاروں ملزمان نے واقعی بھاگنے کی کوشش کی ہو لیکن ایک ساتھ چاروں ملزمان کو مار دینا ايک غير يقينی سی صورت حال ہے۔ اس انکاؤنٹر کی جانچ ہونی چاہيے۔"

ج ا / ع س ( نيوز ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید