1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
میڈیاایشیا

بھارت کا ٹوئٹر کو بند کرنے کی دھمکی دینے کے الزام سے انکار

14 جون 2023

ٹوئٹر کے شریک بانی جیک ڈورزی کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے اس پلیٹ فارم کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ تاہم نئی دہلی نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4SXhB
Logo illustrations in India - 29 Oct 2022
تصویر: Avishek Das/SOPA/ZUMA/picture alliance

بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر مملکت راجیو چندر شیکھر نے 13 جون منگل کے روز اس دعوے پر سخت رد عمل ظاہر کیا کہ مودی حکومت نے سوشل میڈیا کے معروف پلیٹ فارم ٹوئٹر کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ انہوں نے اسے ''جھوٹ'' قرار دیا۔

راہول گاندھی، شاہ رخ، امیتابھ بچّن اور کوہلی کا ٹویٹر بلیو ٹک غائب

ٹوئٹر کے شریک بانی جیک ڈورزی نے انکشاف کیا تھا کہ بھارتی حکومت نے ٹوئٹر سے مطالبہ کیا تھا کہ بھارتی کسانوں کے احتجاج کو کنٹرول کرنے پر نکتہ چینی کرنے والے اکاؤنٹس کو وہ محدود کر دے، ورنہ اسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کورونا وبا سے متعلق مذہبی منافرت میں بھارت سر فہرست، رپورٹ

مودی حکومت پر الزامات کیا تھے؟

ٹوئٹر کے شریک بانی جیک ڈورزی نے سن 2021 میں ٹویٹر کے سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بھارتی حکومت نے دھمکی دی تھی کہ اگر کمپنی ان کے مطالبات پر عمل نہیں کرتی ہے اور بعض پوسٹس کو ڈیلیٹ نہیں کیا جاتا، تو پھر ٹویٹر کے ملازمین کے گھروں پر چھاپے مارنے کی کارروائی کی جائے گی۔

ٹوئٹر ڈس انفارمیشن کے خلاف کوششیں تیز کرے، یورپی یونین

انہوں نے ایک آن لائن انٹرویو کے دوران بتایا، ''یہ اس طرح سے سامنے آتا رہا جیسے: 'ہم بھارت میں ٹویٹر کو بند کر دیں گے'، جو ہمارے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، 'ہم آپ کے ملازمین کے گھروں پر چھاپے ماریں گے'، جو انہوں نے کیا بھی اور یہ وہ بھارت ہے، جو ایک جمہوری ملک ہے۔''

فیک نیوز: گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر کے خلاف بھارت کا سخت ردعمل

 ٹویٹر کے سابق مالک کے ان تبصروں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں کام کرنے والے غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو درپیش دباؤ  اور چیلنجز کو اجاگر کیا ہے۔

Fake News Hotspot Indien Englisch

جیک ڈورزی کے بیان کے بعد بھارت میں اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت پر حملہ آور ہوگئی ہیں۔

مودی کے وزیروں کا 'ٹوئٹر‘سے غصہ،'کوو‘ سے بڑھتا ہوا پیار

مودی کی حکومت اکثر گوگل، فیس بک اور ٹویٹر جیسی کمپنیوں کو جعلی یا ''بھارت مخالف'' پوسٹس کو روکنے میں ناکامی کے بہانے یا پھر قواعد و ضوابط  کی تعمیل نہ کرنے جیسے معاملے پر تنقید کا نشانہ بناتی رہتی ہے۔

بھارت نے ٹوئٹر کے ان الزام کو مسترد کیا

چندر شیکھر مودی کی حکومت میں ایک اعلیٰ عہدے دار ہیں۔ انہوں نے ڈورزی کے اس دعوے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے غلط بتایا۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ''یہ سراسر جھوٹ ہے۔''  

انہوں نے مزید کہا کہ ''شاید یہ اس وقت کی ٹوئٹر کی انتہائی مشکوک تاریخ کے دور کو ختم کرنے کی ایک کوشش تھی۔'' تاہم وہ اس موقف پر بھی قائم رہے کہ ڈورزی اور ان کی ٹیم سن 2020 سے 2022 تک مسلسل بھارتی قانون کی تعمیل نہیں کر رہی تھی اور پھر جون 2022 میں انہوں نے آخرکار ضوابط کی تعمیل کی۔''

انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی حکومت ''پلیٹ فارم سے غلط معلومات کو ہٹانے کی پابند ہے کیونکہ اس پر جعلی خبریں صورتحال مزید بھڑکانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔''

انہوں نے کہا، ''ریکارڈ کو صحیح پیش کرنے کے لیے کہتا ہوں کسی پر چھاپہ نہیں مارا گیا اور نہ ہی کسی کو جیل بھیجا گیا۔ ہماری توجہ صرف بھارتی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنانے پر تھی۔''

ٹویٹر کے مطابق حکومتوں کی جانب سے مواد ہٹانے کی جو درخواستیں دی گئیں تھیں، اس میں بھارت پچھلے برس جاپان، روس اور ترکی کے بعد چوتھے نمبر پر تھا۔

سن 2021 میں بھارت میں کورونا وائرس کی وبا کے عروج کے دوران حکومت نے ٹویٹر اور فیس بک کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسی درجنوں پوسٹس کو ہٹا دیں جن میں حکومت کی کارکردگی اور اس سے نمٹنے میں ناکامی پر تنقید کی گئی تھی۔

میڈیا سے متعلق عالمی ادارے رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے اسی برس بھارت میں کسانوں کے بڑے پیمانے کے احتجاجی مظاہروں کے دوران سوشل میڈیا کی معطلی کو ایک ''واضح سینسرشپ کا حیران کن معاملہ'' قرار دیا تھا۔

انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق بھارت میں اظہار رائے کی آزادی خطرے میں ہے اور سن 2014 میں مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ ملک عالمی پریس فریڈم کی انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 21 درجے گر کر 161 پر آگیا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، ای ایف ای)

بھارت: ڈیجیٹل بوم کے ساتھ بڑھتی سینسرشپ